February 3, 2014

فضائی سفر، ہوائی اڈے، فضائی کمپنیاں

Fzai Safar, Hawai Addy, Fzai compnies


پچھلے دنوں ایک سروے ہوا جس میں دنیا کے بہترین اور بد ترین ہوائی اڈوں کے بارے ایک سروے کیا گیا تھا۔ ایسے ہی 
پچھلے دنوں ایک سروے نظر سے گزرا جس میں مسافروں سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے لیے سب سے تکلیف دہ چیز دروان پرواز کیا ہوتی ہے۔ ہم بھی دنیا بھر کی ہوائی کمپنیوں کے ساتھ سفر کر چکے ہیں مگر جیسے آج تک کسی نے ہمارے بلاگ کو منہ نہیں لگایا ایسے ہی کبھی کسی نے بطور مسافر ہمیں بھی منہ نہیں لگایا کہ میاں منہ میں دانت رکھتے ہو کہ نہیں؟نو سال ہوئے اڑتے کبھی کسی نے نہیں پوچھا میاں کوئی گلہ؟ کوئی شکوہ؟ کوئی صلاح؟ کوئی تجویز؟ لیکن ایک لحاظ سے ہوائی کمپنیوں والے بھی سچے ہیں کہ کبھی ہمارے گھر والوں نے ہم سے کسی معاملے میں مشورہ طلب نہیں کیا پرائے لوگ کیا دید کریں۔ لیکن ہم بھی مشورہ مفت ہےکا چلتا پھرتا نمونہ ہیں اور آتے جاتے کی بانہہ پکڑ کر اس کو بلا طلب کیے مشورہ پیش کرتے رہتے ہیں اس لیے ہم نے سوچا یہاں کیوں پیچھے رہیں اور نتیجۃ مشورہ حاضر ہے۔



اگر ہوائی اڈوں کی بات کی جائے تو میرے خیال میں سب سے برا ہوائی اڈا پراگ Pragueہے ۔ بس دعا کریں آپ کو وہاں سے کوئی اگلی فلائیٹ نہ پکڑنی ہو۔ شیطان کی آنت سا طویل اور بھول بھلیوں کا عملی نمونہ۔ اوپر سے اگر کبھی کسی چیک(اصل تلفظ چیخ) Czech والے سے بات کریں تو آپ کو لگے گا وہ چیخ ہی مار رہا ہے۔ ایک زبان نا آشنا دوسرا بھولا ہوا راستہ تیسرا بداخلاقی بس تمام اجزائے ترکیبی جمع ہیں۔

 قطر ایر ویز کو بھلے ہی آپ پنچ ستارہ ہوائی کمپنی کہیں لیکن جب تک دوحہ کا ہوائی اڈا نہ بن جائے میرے نزدیک تو وہ سبز ستارہ کہلانے کے بھی قابل نہیں۔ ایک چھوٹا سا ہال جس میں ایک جہاز کے مسافروں سے ہی ایسا لگتا ہے کہ اندرون شہر کسی بازار میں آ گئے ہوں کجا ایک سو دس مقامات پر جاتی قطر ائیرویز۔ بس یوں سمجھیں ایک پسینے کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔

معاملہ ابو ظہبی ہوائی اڈے کا بھی چنداں مختلف نہیں۔ وہاں بھی ابھی ہوائی اڈا زیر تعمیر ہے اور ایسے مسافر حضرات جنہوں نے وہاں جہاز تبدیل کرکے اگلی فلائیٹس پکڑنی ہوتی ہیں سے مجھے پوری ہمدردی ہے کہ میں بھی اس اذیت ناک مرحلے سے گزر چکا ہوں۔ حالانکہ اتحاد ایر وئیز میرے اب تک کے تجربے کے مطابق واحد فضائی کمپنی ہے جو دوران سفر بجلی کی اشیا چارج کرنے کی سہولت اور کیپاچینوکافی دیتی ہے جس کی مشین انہوں نے جہاز میں ساتھ رکھی ہوتی ہے لیکن کیا فائدہ ایسی اچھی کافی کا جس کا اخراج اگر ہوائی اڈے پر کرنا پڑ جائے تو الٹے راستے سے ہونے (قے)کا امکان زیادہ ہو۔

آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ برے ہوائی اڈوں کی بات ہو رہی ہے اور پاکستان کی بات نہیں آئی تو جہاں بیچارے مسافروں کے لیے نشستیں بمشکل پوری ہوں وہاں لینے والوں اور چھوڑنے والوں کے ساتھ بدسلوکی، بد انتظامی کی شکایت کیا کرنی۔ تاہم ہمارے ہوائی اڈے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئےخوش اخلاقی اور تعاون میں بھی واہ واہ ہیں ۔ جیسے ہی آپ ہوائی اڈے میں داخل ہونے لگے پہلے گیٹ پر سیکورٹی اہلکار آپ کا پوسٹ مارٹم کریں گے۔ پھر لاؤنج میں جاتے وقت آپ کو پہلے ٹکٹ دکھانی ہوتی ہے۔ اللہ جانے وہ سپاہی انکل ای ٹکٹ E- Ticket کیسے پڑھتے ہوں گے جب کہ یورپ کے اکثر ہوائی اڈوں پر کوئی ٹکٹ طلب ہی نہیں کرتا کہ آپ نے اپنی شناختی پہچان پاسپورٹ ، شناختی کارڈ دیا اور انہوں نے اسی سے خود ہی آن لائن آپ کی ٹکٹ دیکھ لی معامہ ختم۔لیکن یہاں تو معاملہ اب شروع ہوتا ہے۔ ٹکٹ دکھا کر آپ مشین کی نذر سامان کیا اور خؤد کسٹم حکام ، انٹی نارکوٹکس اور ایف آئی اے کے پیش ہوئے۔ حالانکہ مشین پہلے چھان چکی ہوتی ہے لیکن چونکہ ٹیکنالوجی پر اعتبار ہمیں قطعاً نہیں لہذا ہم قوت بازو پر اعتبار کرتے ہوئے باری باری سامان کی اجتماعی زیادتی کرتے ہیں اور جب تک آپ بورڈنگ پاس لینے ٹکٹ کاؤنٹر تک پہنچے ہیں آپ کھول دو والی سکینہ کی طرح ہر شے کھولنے پر دماغی طور پر تیار ہوچکے ہوتے ہیں۔
پاکستانی فضائی میزبان مسافروں کو دیکھ کر

برے ہوائی اڈوں میں اٹلی کے شہر میلان Milan کا بیرگامو Bergamo بھی قابل ذکر ہے کہ جیسے ہی جہاز سے اتریں آگے تین چار دکانوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ حالانکہ وہ سستی ہوائی کمپنیوں کا مستقر ہے اور وہاں پر تمام یورپ سیاح آتے ہیں لیکن وہاں سے معلومات کا حصول جوئے شیر لانا ہے۔اور اگر آپ کوئی لینے نہیں آیا اور آپ کو اس کا انتظار کرنا ہے تو یقین مانیں اس سے بہتر ہے کہ اگلی فلائیٹ پکڑ کر واپس چلے جائیں یا سکائی ویز کی بسوں کی طرح اپنا موڑھا ساتھ ہی لے آئیں کہ ہوائی اڈے پر بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں۔

میرا ناپسندیدہ ترین ہوائی اڈا جرمنی کا فرینکفرٹ Frankfurt ہے۔ تین بار گیا ہوں اس کے بعد حتی الامکان کوشش رہی ہے کہ فرینکفرٹ پر کم از کم ٹرانزٹ نہ لیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے ایک بار تمام رات وہاں گزارنی پڑی اور ہم نے بھی اکثر مسافروں کی طرح ایک کھمبے سے ٹیک لگائی اور نیچے فرش پر بھی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے کہ نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبدپر ۔۔۔۔ تاہم اگر کوئی اچھی بات رہی تو وہ یہ کہ وہاں پر ایک مسجد بھی تھی اور اس کے ہم دیوار کلیسا اور یہودی سائینا گوگ یا کنیسہ بھی۔ ہم نے فجر کی نماز بڑے خشوع وخضوع سے پڑھی اور پہلی بار ہمیں اپنے منافق نہ ہونے کا احساس ہوا کہ کہیں پڑھا تھا کہ منافق کی پہچان ہے کہ وہ مسجد میں یوں تڑپتا ہے جیسے پانی بنا مچھلی لیکن اس روز تو ہمارا مسجد سے نکلنے کا دل ہی نہ کرتھا تھا۔

اگر چھوٹے کی بات کی جائے تو بہاول پور ، ملتان کی قسم کا ویانا Vienna کا ہوائی اڈا بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہاں پر کبھی دو سے زیادہ ہوائی جہاز بیک وقت اترے نہیں دیکھے اس لیے کبھی تماشہ نہیں بنا لیکن اکثر جہاز کو جانے والی قطار دوسرے جہاز کو جانے والی قطار کو کاٹتی نظر اتی ہے کہ کوئی پتہ نہیں آپ ٹھہرے تو پیرس جانے والی قطار میں تھے لیکن جب بوڑدنگ چیک کرنے والے عملے کے پاس پہنچے تو آپ ڈھاکہ جانے والے جہاز کے عملے کے پیش ہو سکتے ہیں۔

یوں تو ہمارا تالینTallinn کا ہوائی اڈا بھی چھوٹا سا ہےاور اس کے مقابلے میں وارساWarsaw ہوائی اڈا جہاں سے میں نے تین سال سفر کیا بہت بڑا لگتا ہے۔ لیکن معاملہ تالن میں بھی وہی ہے کہ جہازوں کی آمد و رفت کے اوقات ایسے رکھے جاتے ہیں کہ تماشہ نہ بنے۔لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں جب آپ لاؤنج میں جا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تمام جانے والے مسافر ہیں کیوںکہ آنے والے اور جانے والے دونوں ہی ایک راستہ استعمال کرتے ہیں۔

فضائی کمپنیوں میں ایک بار ائیر بالٹک Air Baltic پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ فضائی کمپنی کھانا نہیں دیتی اگر آپ کو کچھ چاہیے تو خریدیں ۔ ایسی فضائی کمپنیوں کو بجٹ ائیرلائن کہا جاتا ہے۔ لیکن لوگ تو پوری تیاری کر کے آئے تھے۔ ادھر سیٹ بیلٹ کھولنے کا نشان روشن ہوا ادھر لوگوں نے کھولے تھیلے اور کوئی سیب کھا رہا ہے کوئی سینڈوچ کھا رہا ہے کسی کے پاس کوکا کولا ہے اور کسی کے پاس کالا کولا۔ ایک بار پھر ہماری بچت آڑے آئی اورخوشبو پر گزارہ کیا ادھر فضائی میزبان چھ فٹ سے بھی لمبی تھی اور اگر کبھی میں گھبرایا ہوں تو اپنے سے بلند قامت خواتین سے گھبرایا ہوں کہ اپنے مرد ہونے پر شرم سی آتی ہے۔ بس وہ سات گھنٹے بھوک اور شرم میں جیسے گزرے نہ پوچھیں۔ پھر کبھی بالٹک ائیر پر سفر نہیں کیا۔ 

لوگوں کو ایمریٹسEmirates پسند نہیں لیکن مجھے خاصی پسند ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اتحاد ائیر اور قطر کے ہوائی اڈے فضول ہیں اور ان دونوں جہازوں میں بھارتی مسافروں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جو کہ مجھے پسند نہیں۔ ایمیریٹس میں نجانے کیوں بھارتی مسافروں کا تناسب اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور پھر دبئی کا ٹرمنل تین ویسے بھی میرے پسندیدہ ہوائی اڈوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔

سوئس ائیر Swiss airکا بڑانام سنتے تھے لیکن جب جہازوں پر بیٹھےتو ہمیں اپنے ملتان میں بوسن روڈ پر چلنے والا کامران طیارہ زیادہ مضبوط اور قابل اعتبار لگا۔

ترکش ائیر لائن Turkish airline کے جہاز خاصے تنگ مگر ہوائی اڈا اور عملہ بہت اچھا ہے اور ترک ڈرامے دیکھ دیکھ کر جو لوگ ترکی جانے کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ترکی آکر ترکوں کو دیکھیں ڈرامے کے ہیرو ہیروئینوں کو بھول جائیں گے۔ ملک اور لوگ دونوں یکساں خوبصورت ہیں۔

ایک بار چائینا ایسٹرن ہوائی کمپنی China Easternمیں کراچی سے بیجنگ جانے کا اتفاق ہوا اور اس اتفاق میں برکت ہم کو بالکل دکھائی نہ دی اور بیجنگ کے میلوں پھیلے ہوائی اڈے پر ہم نے ناک سے لکیریں کھینچ کر چائینا ایسٹرن سے توبہ کی۔ 

پولینڈ کی لوٹ پولش Lot Polishہو، ایستونین Estonian Airائیر ہو ایک سا معاملہ ہے کہ ان کا واحد مقصد کسی بڑے ہوائی اڈے تک پہنچنا ہے جہاں سے ہر جگہ جانے والی پرواز مل سکے۔

ریان ائیر Riyan Air اور وز ائیر Wiz air سستی فضائی کمپنیاں ہیں جہاں سب سے مزیدار معاملہ یہ ہے کہ سیٹ نمبر نہیں دیا جاتا آپ جہاز میں جا کر خود جس نشست پر قبضہ کر سکیں کر لیں۔

فلائی دبئی Fly dubai بھی سستی ائیر لائن ہے جو میں اکثر دبئی ملتان راستے کے لیے استعمال کرتا آیا ہوں لیکن اس سے سستی ٹکٹ تو بسا اوقات اپنی پی آئی اے PIA اور شاہین ائیر Shaheen Air کی مل جاتی ہے۔

لفتھانزا Lufthansa پر سفر کا اتفاق ہوا اور اسکو ہر لحاظ سے عمدہ پایا باقی عنقریب مزید سفر متوقع ہیں جس کے بعد حتمی نتیجہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

کے ایل ایم KLM میں بیٹھے تو سہی لیکن معاملہ ڈانواں ڈول ہی ہے کہ یہاں بھی بھارتیوں کا تعداد زیادہ دکھائی دی حالانکہ میری فلائیٹ دبئی کی تھی اور کے ایل ایم ٹرانزٹ transit ابو ظہبی سے اتحاد ائیر ویز کے تعاون سے دیتا ہے۔ باقی جہاز خالی مل جائے تو کھانا پینا ماڑا نہیں جو کہ ہمیشہ سے ہماری کمزوری رہی ہے۔اور سونے پر سہاگہ کہ ہم تو مسلم فوڈ ٹکٹ بک کرتے وقت ہی کہہ دیتے ہیں لیکن دبئی جاتے ہوئے پتہ چلا کہ اس راستے پر کے ایل ایم حلال کھانا ہی دیتا ہے۔یہ مثبت منفی کا چکر یہاں تک محیط نہ رہا بلکہ جب دبئی اترا تو پتہ چلا کہ سامان نہیں پہنچا لہذا سامان کھونے کی شکایت درج کرائیں اور دعا کرین کہ سامان بخیریت پہنچ جائے اور پہلی بار ایمسٹرڈیم اور کے ایل ایم کی مہربانی سے ہم بھی دوران سفر سامان گنوانے والوں مین شامل ہوگئے تاہم اسی روز کے ایل ایم کی طرف سے ملنے والی ای میل نے حوصلہ دلایا جس میں انہوں نے معذرت کی اور ساتھ ہی کہا کل تک سامان آپ کو آپ کے گھر پہنچا دیا جائے گا اور اگلے روز ایسا ہی ہوا۔

بہت سی مزید فضائی کمپنیاں بھی زیر استعمال رہ چکی ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے معاملہ یہیں تک چھوڑا جا رہا ہے۔

ایک سروے میں پوچھا گیا کہ دوران سفر سب سے زیادہ آپ کو کیا چیز تنگ کرتی ہے تو اکثر کا جواب تھا بچوں کا رونا۔ لیکن میرے مطابق بچوں کے رونے سے بھی زیادہ اور فضائی سفر کے ناہموار ہونے سے بھی زیادہ اور عملے کے بدتمیز ہونے سے بھی زیادہ ناقابل برداشت ان جرابوں کی بو ہے جو لوگوں کے دوران سفر جوتے اور جرابیں اتارنے سے آتی ہے۔ اگر آپ کے پاؤں سے بو نہیں آتی تو آپ کو ویسے بھی زیادہ غصہ آئے گا کہ آپ ایسی دردناک بو کے عادی نہیں اور اگر بدقسمتی یا خوش قسمتی سے آتی بھی ہوتو ہم اس قبیل کے لوگ ہیں جو شرم کے مارے بوٹ جرابیں پہنے رکھیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ حالانکہ کوئی ان کو کچھ کہہ سکا ہیں جنہوں نے اتاری ہیں تو ہمیں کیا کہیں گے۔ لہذا فضائی سفر کو محفوظ بنانے کی غرض سے ہمارا پرزور مطالبہ ہے کہ سیکورٹی چیک کے وقت لوگوں کی جرابیں اور بوٹ بھی چیک کیے جائیں اور جن کے بوٹ جرابیں ناقابل برداشت ہوں ان کو جہاز میں سوار ہونے سے پہلے پاؤن دھونا ضروری قرار دیا جائے۔ وگرنہ ہماری بد دعا ہے کہ اللہ کرے ان کے پاؤں میں بو ختم ہو جائے اور یہ جب بھی سفر کریں ان کو ساتھ والی نشست پر پیروں کی بدبو والا ہی ملے۔ آمین