August 25, 2014

لنڈی سے بلونڈی اور بلونڈی سے لنڈی تک

Londi se blondie tak aur blondie se londi tak



میرا ماموں زاد صبح صبح میرے پاس آیا اور بولا علی بھائی ہم نیا کتا لینے جا رہے ہیں۔ اچھا بھائی، کہاں سے ؟ لاہور سے۔ 
میرے دماغ میں سیاسی بات آئی لیکن میں نے پوچھا کیوں بھائی یہ ہے تو سہی۔ اس نے کہا کہ یہ تو دیسی ہے یا زیادہ سے زیادہ کوئی ملی جلی نسل ہے لیکن اب جو ہم لینے جا رہے ہیں وہ خاص الخاص نسل در نسل سے لیبرے ڈور Labrador نسل کا کتا ہے۔ میں نے کہا یار یہ تو کوئی شرافت نہ ہوئی ہم تو جب بھی کتا لائے ہیں آپ کا ساتھ لائے ہیں آپ اکیلے اکیلے۔ اس نے کہا اس بندے کے پاس ایک ہی ہے اور ویسے بھی ہمارے ماموں کے پاس ماضی میں اچھے کتے رہے ہیں لہذا میرا مقصد فقط چھوٹے ماموں زاد سے مذاق کرنا تھا۔
اگلی شام تک میرے کزن نے لیبرے کے بارے ہر بات رٹ لی نہ صرف خود رٹ لی بلکہ سب گھر والوں کو بھی رٹا دی۔ دو دن بعد جب ان کا لیبرے آ گیا تو ان کا موجودہ کتا جس کی دم کٹی ہونے کی مناسبت سے میں اسے لُنڈی (سرائیکی میں لُنڈی دم کٹی کو کہتے ہیں جس کو اردو میں لنڈوری کہتے ہیں) بلاتا تھا ہمارے گھر آ گیا اور اسی لُنڈی کے ہمراہ آنے والا ہمارا کتا جس کا کوئی نام نہیں تھا گھر کی پچھلی طرف منتقل ہو گیا کہ لنڈی آخر مہمان تھی اور مہمانوں کا حق زیادہ ہوتا ہے۔

لیبرے کا نام بلونڈی یعنی گوری (Blondie) تھا اور وہ جنس کے اعتبار سے کتیا تھی۔ بہت خوبصورت اور نرم خو گویا اپنے نام کے عین مطابق تھی۔ اس کے بارے پتہ چلا کے پچھلی پانچ نسلوں کے سرٹیفیکٹ ہیں کہ بلونڈی کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کتے کتیا کی نسل سے نہیں۔ یہاں لوگوں کا شجرہ نہیں اور بلوںڈی اپنا شجرہ ساتھ لیے پھرتی تھی۔ بلونڈی کے لیے خاص طور پر لاہور سے ہی کتوں کے کھانے کے بسکٹ ساتھ لائے گئے جبکہ جو لوگ گاؤں میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ گھروں میں حفاظت کی غرض سے رکھے جانے والے کتوں کے ساتھ کتوں والی ہی کی جاتی ہے کہ جو روکھا سوکھا ہو ان کو کھلا دیا جاتا ہے سالن، لسی، دودھ، دہی، بچی کھچی روٹی اور وہ بھی خوشی خوشی کھا کر بلیوں پر بھونک کر حق ادا کر دیتے ہیں۔

بلونڈی کی یادگار تصویر

لنڈی کی تازہ ترین تصویر

بیچارہ ہمارہ کتا
ادھر ہمارا نوکر عمرانا بھی اپنی مثال آپ ہے کہ اکثر وہ میرے لگائے درختوں کو تو پانی لگاتا ہے لیکن جو درخت ماموں کے ہیں ان کو چھوڑ دیتا ہے، وہ ہماری مرغیوں اور بطخوں کا تو خیال کرتا ہے لیکن ہماری مرغیوں کے ساتھ پھرتی دوسرے رشتہ داروں کی مرغیوں کو دانہ بھی نہیں ڈالتا کہ وہ کہتا ہے میں آپ کا نوکر ہوں آپ کا کام کروں گا جو ان کے نوکر ہیں وہ ان کے کام کریں گے لیکن آخر کار اس کو دوسروں کے کام بھی کرنے پڑتے ہیں کہ ہمارا گھر ماموں کا گھر دو تین خالاؤں کے گھر بالکل آس پاس ہیں اور ویسے بھی ہمارے گاؤں کا نام ہی کوٹلہ سادات ہے جہاں آدھے سے زیادہ سید بستے ہیں اور کوئی ماموں کا چچا زاد ہے کوئی خالہ زاد ہے۔ تو ہماری نانی اماں نے ایک دن والدہ سے کہا کہ ہمارا کتا (لنڈی) کمزور ہوا ہوا ہے اس کو کھانا نہیں ڈالتے؟ والدہ نے پوچھا تو جواب ملا آج صبح روٹی اور لسی ڈالی تھی نواب صاحبہ کھاتی ہی نہیں تو نانی اماں نے انکشاف کیا کہ جنابہ (لنڈی) فقط دودھ نوش جان کرتی ہیں۔

اب لنڈی کو دو دن میں ایک بار جب عمرانے کا دل کرتا دودھ ملنے لگا اور اس کی شکایت بھی کی گئی کہ بیچاری اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ چل بھی نہیں سکتی لیکن بلونڈی کی عیاشی تھی کہ لاہور کے بسکٹ تھے اور اس کی خاص طور پر ویکسینیشن بھی کرائی گئی۔ ماموں زاد آیا تو اس سے پوچھا بلونڈی کا حال سناؤ۔ بولا مزے ہیں سارا دن اے سی کے نیچے بیٹھا رہتا ہے وہی پانی پیتا ہے اور ذرا سست سست تھا تو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ میں ہنس پڑا اور بولا شاہ جی اے سی والا پانی تو سنا ہے تیزابی ہے نسلی کتا ہے اس کو اندر اے سی میں بٹھاؤ اس کے ساتھ کھیلو۔ بیچارے کو ڈپریشن ہو جائے گا۔ وہ ہنس پڑا اور بات ختم ہو گئی۔

ایک روز میں گزرا تو دیکھا گلی کے آوارہ کتے بلونڈی کے ساتھ گھر میں کھیل رہے تھے تو کہیں آٹھویں نسل میں داغ نہ لگ جائے میں نے اپنے کزن کو کہا شاہ جی بلونڈی پر نظر رکھو اس کے چال چلن اچھے نہیں لگ رہے۔ اس کے بعد ہمارے ماموں کے گھر کا دروازہ سرشام بند ہوجاتا تھا جو کہ اکثر تمام رات ہی کھلا رہتا ہے۔

ماموں کو سب گھر والوں کے ساتھ اسلام آباد جانا پڑا تو بلونڈی دو دن کے لیے نوکروں کے حوالے کر دیا گیا۔ تاہم نوکروں نے مالکوں کے جانے کی خوشی میں گھر کو تالا لگایا اور وہ بھی ادھر ادھر چل دیے اور بیچارہ بلونڈی رات تک چیخ چیخ کر فریاد کرتا رہا ( کتے کے چیخنے کو سرائیکی میں رُڑنا یا کوکنا کہتے ہیں جس میں وہ خاص انداز میں چیختا ہے) کر تھک گیا تاہم رات کو اس نے کسی طرح دیوار سے راستہ بنا لیا اور ہمارے گھر آگیا۔ اب یہاں آ کر پہلے تو اس نے کہیں سے غلاظت اٹھائی اسے کھانے لگا وہاں سے بھگایا صفائی کرائی تو کالے رنگ کے کیڑے جنہیں ہم ٹینڈن (انگریزی: Beetles ، اردو: بھنورا) بولتے ہیں چن چن کر کھانے لگا آخر جب اس کا پیٹ بھر گیا تو ہمارے کولر کے نیچے لیٹ کر سو گیا۔

دوسرے روز عمرانے نے تمام سرنگیں بھر دیں اور اب کے بلونڈی کو کھانے کو سنیکس یعنی کیڑے بھی میسر نہ تھے تاہم جب ماموں لوٹے تو ان کی نوکرانی نے کہا کون کہتا ہے بیچارہ بلونڈی بھوکا رہا میں تو اسے اپنے ہاتھ سے پاپے کھلاتی تھی اور وہ پاپے بڑے شوق سے کھاتا ہے میں جو جانے لگتی تھی میرا ہاتھ چاٹنے لگتا تھا۔  اب اللہ جانے کیا سچ کیا جھوٹ بہرحال بلونڈی کو تین بعد خون کی الٹیاں اور دست لگے اور وہ ان پاپوں سمیت اگلے جہان روانہ ہو گیا۔

میرے کزن نے اگلے روز کہا علی بھائی آپ ٹھیک کہتے تھے بےچارہ گرمی سے اور تنہائی سے مر گیا۔ میں نے کہا میں نے پہلے متنبہ کیا تھا بےچارے کے آبا بھی سوچتے ہوں گے کہ ہماری نسل کہاں جا پھنسی۔ وہ ہنسا اور بولا چلو وہ ہمارے والا کتا تو عمرانے کو کہیں ہمارے گھر باندھ دے۔ میں نے کہا لنڈی؟ بولا نہیں بلونڈی تو مر گیا میں نے کہا بلونڈی نہیں لنڈی۔ اس کو سمجھ آ گئی وہ ہنسا اور بولا جی ہاں لنڈی کی واپسی۔