October 27, 2014

ادلی کی بدلی

Adli ki badli



ارادہ تو تھا کہ یہ ناول سنجیدہ طرز پر لکھا جائے اور ڈرامائی تشکیل دی جائے لیکن ٹیلنٹ کی قدر ہی نہیں کہ ہماری طرف ڈرامے بھی ترک یا ترک تعلق کے چلتے ہیں لہذا آپ کی شامت ہے پڑھیں اس کو چار پانچ قسطوں میں ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ 

 میں نے گھبرا کر آنکھ کھول دی۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی میرا سانس گھونٹ رہا ہو۔ آنکھ کھلی تو واقعی کوئی سانس گھونٹ رہا تھا۔ مجھے جو سب سے گندی گالی آتی تھی وہ میں نے اس کو دی اور گالی سننے والا نسوانی آواز میں ہنس پڑا۔ میں نے منہ پر سے تکیہ ہٹایا اور سامنے ایک لڑکی بیٹھی ہنس رہی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا یہ میرا کمرہ نہیں تھا۔ کہاں ایک شور زدہ دیواروں والا کمرہ جس پر اترے رنگ کو چھپانے ادا کاروں ، کھلاڑیوں اور قدرتی مناظر کی تصاویر اخباروں سے کاٹ کر چسپاں کی گئی تھیں اور کہاں یہ ایسا شاندار کمرہ جس کی دیواروں پر اتنا ملائم رنگ ہوا تھا کہ آپ کیرم بورڈ کھیل سکتے تھے۔ اور چلو باقی تو نظر کا دھوکا ہو سکتا ہے لیکن لڑکی ۔۔۔ میرے کمرے میں۔۔۔ ہمارے محلے میں میرے خیال میں وہ قیامت کا ہی دن ہوگا۔ مجھے یاد آیا بچپن میں جب کوئی آ کر لمبی ہانکتا تھا تو آخر میں ہم کہتے تھے کہ اور میری آنکھ کھل گئی اور میرا سر ادھوائن میں پھنسا تھا لیکن یہاں تو کوئی چارپائی نہ تھی بلکہ ایک ایسا پلنگ تھا جس کو بنچنگ جمپنگ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ مجھے جاسوسی ناول یاد آئے، عمران کا اغوا، چلوسک ملوسک کی واپسی ، آنگلو بانگلو اور طلسم ہوش ربا۔

ڈرتے ڈرتے لڑکی کی طرف دیکھا وہ ایسے بے تکلفی سے بیٹھی تھی جیسے اسی کا گھر ہو۔ میں نے سوچا میرا گھر تو ہے نہیں کیا پتہ اسی کا ہو۔ میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ یہ کیا میں ایک کچھے اور ٹی شرٹ میں تھا۔ وہ لڑکی ہنسنے لگی۔ میں نے سوچا شکر ہے اماں نہیں ہے ورنہ میں رو رہا ہوتا کہ سختی سے ممانعت تھی کہ محلے میں کچھا پہن کر نہیں گھومنا حالانکہ کئی بار اماں کو نیکر ، کچھے اور برمودے کا فرق سمجھایا تھا لیکن اماں مانتی تو نہیں تھیں تحقیق کی جاتی تو وہ چنگیز خان کی دور پرے کی رشتے دار ضرور نکلتیں۔

بھائی جلدی آو پاپا بلا رہے ہیں۔ میری ٹھنڈی آہ نکلی کہ ملی بھی تو بہن۔ اور یہ پاپا کون ہے؟ ناشتے کا ذکر لیکن اتنے ادب سے ناشتہ صاحب بلا رہے ہیں۔ اور اگر پاپا سے مراد والد ہے جو کہ لڑکی کے برگرانہ عادات دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے تو ابا کہاں گیا؟ اچھا!!! میں بھی کہوں ابا سارا دن کہاں غائب رہتا ہے یہ چکر ہے ادھر کوئی سیٹنگ کر رکھی ہے اور چونکہ میں واحد ولی عہد ہوں (یہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا ہو گا ناں) اس لیے مجھے یہاں بلا لیا کہ آؤ بیٹا سلطنت سنبھالو میرا آخری وقت ہے۔ ابا یا پاپا کے آخری وقت پر اتنا افسوس نہ ہوا جتنی خوشی سلطنت کے ملنے کی تھی۔ مجھے ابا کے ہاتھوں عزت افزائی کی تمام کوفتیں بھول گئیں اور میرا سر ایسے فخر سے بلند ہو گیا جیسے میرے بیٹے نے بورڈ میں فشٹ (فشٹ فرسٹ بھی اگلی پوزیشن ہوتی ہے) پوزیشن حاصل کی ہو۔

میرے کپڑے کہاں ہیں؟ مجھے اپنی آواز عجیب سی لگی جیسے کوئی ناک میں بول رہا ہو۔ مجھے ممی ڈیڈی بچے یاد آنے لگے جو ایسے بولتے تھے جیسے ابھی رونے لگیں گے۔ ویسے یہ ممی ڈیڈی کا بچوں کا بھی عجیب چکر تھا لوگ کہتے ہیں کہ یہ آخر ہے کیا بلا ممی ڈیڈٰی تو بھائی ہر وہ امیر بچہ جو آپ کو لفٹ نہ کرائے ممی ڈیڈی یا برگر فیملی ہے۔ وہ ہنسنے لگی اور بولی آپ کا کمرہ ہے آپ کو پتہ مجھے کیا پتہ جلدی آئیں نیچے چینج کر کے۔

کیا چینج کر کے۔ یا اللہ یہ میرے ابے نے کس کو پھنسا لیا بلکہ کس کس کو پھنسا دیا۔ اب کیا چینج کروں؟ ہماری طرف تو فیوز چینج ہوا کرتے تھے اب ان کا مین سوئچ کہاں لگا ہے؟ اور میرا کمرہ کہاں سے آگیا، یہ کچھا میرا اپنا نہیں تھا کمرہ کہاں سے آتا۔ میں بستر سے اترا اور اماں یاد آئیں کہ کبھی بستر سے اتر کر کمبل رضائی تہہ کیے بغیر نہ اترو ورنہ شیطان بستر میں گھس جاتا ہے۔ میں تو اسی لیے ایک آدھ جوتی کھا لیتا تھا اماں سے کہ چلو شیطان کچھ دیر تو انسانوں کی جان چھوڑے گا حالانکہ بستر میں اکثر اتنی بو ہوتی تھی کہ شیطان کیا شیطان کا باپ اس میں نہ سو سکے لیکن اماں سمجھتی تھیں شاید میں نکھٹو ہوں اسی لیے نہ بستر تہہ کرتا ہوں نہ کبھی چادریں دھوئیں ہیں بستر کی۔

میں نے ایسے صاف بستر پر رشک آمیز نظروں سے دیکھا اور سوچا کہ چل شیطاناں اج عیش کرلے۔ اب ڈھونڈنے لگا الماری، یا بکس یا کوئی کیل کوکا جس پر کپڑے لٹکے ہوں۔ ایک الماری کھولی اندر فریج لگا تھا فریج میں طرح طرح کے جوس پڑے تھے۔ میں نے کہا یار یہ ہوٹل ہے؟ لیکن ہوٹل تھا تو وہ بیری بہری تھی کیا بھائی کس خوشی میں بنا رہی تھی مجھے۔ پھر یہ خیال آیا کہ آج سے پہلے کسی نے کسی خوشی میں بنایا تھا بس کچھ لوگ ہوتے ہیں ناں کہ ان کو دیکھ کر خیال ہی یہی آتا ہے، چول، پاغل یا بھائی بس میں بھی ان میں سے تھا۔ لیکن چونکہ ہوٹل میں مجھے کرایہ بھرنا پڑتا اور میرے پاس کبھی رکشے کا کرایہ نہیں رہا کمرے کا کہاں سے آتا اس لیے میں نے ہوٹل کے خیال سے ابا کی دوسری شادی کے خیال کو فوقیت دے کر ہوٹل کے امکان کو رد کر دیا۔ایک دروازہ دکھائی دیا اندر گیا تو دو مزید کمرے تھے ایک تو آگے غسل خانہ تھا اور ساتھ ایک اور کمرہ(ڈریسنگ روم)۔ میں نے کہا واہ بھائی نہاؤ وہاں کپڑے یہاں بدلو۔ یعنی وہ سردار والی بات ہو گئی ایک گرم پانی کا ٹب ایک ٹھنڈے پانی کا ٹب اور تیسرا کبھی کبھی نہیں بھی نہانے کو دل کرتا۔۔۔

غسل خانہ کیا تھا کوئی ڈرائنگ روم تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اسی غسل خانے میں جاگتا تو اپنے پرانے گھر سے اسی کو چن لیتا۔ ساتھ والا کمرہ تو بونس تھا۔ ساتھ والے کمرے میں بہت ساری الماریاں تھیں۔ میں نے سوچا اچھا یہ نیا فیشن ہے پڑچھتی کی بجائے غسل خانے کے ساتھ ایک کمرہ بنوا لو۔ بکس تو کوئی نظر نہ آئی تو میں نے الماری کھولی ۔ بس اللہ جھوٹ نہ بلوائے ایسے ایسے شاندار کپڑے کہ کیا عزیز بھائی کی ریڑھی پر ہوتے ہوں گے۔ میں نے ایک سرخ رنگ کی شرٹ پہنی تو بالکل میرے ناپ کی نکلی۔ ایک جینز پہنی تو وہ بھی میرا ہی ناپ نکلا۔ میں نے ابے کو دل ہی دل میں شاباشی دی کہ میں تو اویں یتیم ہونے کی دعائیں مانگتا رہا وہ تو بڑے کام کا والد صاحب نکلا۔ اتنی محبت۔۔۔۔میں نے پینٹ شلٹ (اپیشل شرٹ) پہنی لیکن اندرونی کپڑے نہ آزمائے کہ جتنے میلے ہوں بندہ اپنی اصلیت، اوقات اور لنگوٹی میں رہے تو ہی اچھا لگتا ہے۔

میں نے شیشے میں اپنے ریشمی بالوں پر ہاتھ پھیرا اور باہر نکلنے لگا۔

یہ کیا۔

 میں واپس بھاگا شیشے کی طرف میں نے تو پچھلے ہفتے ہی گنج کرائی تھی یہ ریشمی بال۔ میرے بالوں پر تو میرے دوست کہا کرتے تھے کہ تو نائی کے پاس نہیں مالی کے پاس جایا کر کہ وہ درانتی سے کاٹ لے کجا یہ کرینہ کپور سی زلفیں۔

او تیری خیر ہووے یہ تو شکل بھی میری نہ تھی بالوں کی الجھن سے نکلا تو مجھے احساس ہوا۔ یہ میں نہیں کوئی اور تھا۔۔۔۔۔ 
(جاری و ساری ہے)