November 10, 2014

ادلی کی بدلی - تین کا تڑکا

Adli ki badli- teen ka terka

اس سے پہلے 

واہ میرے مولا تیرے رنگ بھی نرالے ہیں۔ کل بادشاہ تھے آج مانگنے والے ہیں۔ غربت میں شعر کی آمد کوئی ایسا عجیب امر نہ تھا۔ مجھے خیال آیا کہ حال اپنا بھی بہادر شاہ ظفر والا ہوا بس وہ رنگون چلا گیا اور ہم سنگون (سنگین کو رنگون کا ہم قافیہ بنانے کو سنگون بنایا گیا)۔ آج پندرہ ہزار سے کم نہ لے کر آئیو۔ مجھے بھیک مانگنے سے زیادہ زور کا جھٹکا لگا۔ پندرہ ہزار تو میں نے آج تک اکٹھا نہ دیکھا تھا بھیک کیسے مانگ کر لاتا۔ پہلے خیال آیا کہیں اس کو پتہ تو نہیں کل میں آپ جناب بنا تھا پھر اس خیال کو جھٹکا اورجی تو آیا کہ کہوں بھیک مانگنے جا رہا ہوں یا تاوان لیکن گال ابھی تک گرم تھا ۔

باہر نکلا کوئی انجان جگہ تھی میں نے سوچا چلو کوئی جان پہچان والا نہیں ورنہ کیا سوچتا پھر ہنسی آگئی کہ میں کونسا اپنی اصل شکل میں تھا۔ میں خود کو نہیں پہچان سکتا تھا کوئی اور کیسے پہچانتا۔ دو دنوں میں دماغ کو ایسی پٹخیاں آئی تھیں کو ہوش تو تھا لیکن اپنے حواس میں نہ تھا۔ ذرا خیال نہ آیا کہ دیکھوں یہ کونسی جگہ ہے ، کونسا شہر ہے کوئی اپنے گھر کا احوال پتہ کروں لیکن گھر کا خاک پتہ کرتا یہاں اپنا پتہ نہ لگ رہا تھا کہ کسی کو آپ کہہ کر مخاطب کرنا چاہتا تھا تو ابے تبے نکلتا اور گالی ایسے پھسل پھسل کر زبان پر آتی جیسے کسی سرکاری ملازم کے سامنے پیسے پڑے ہوں۔

کچھ ہوش نہیں کیسے مانگا کس سے مانگا لیکن ہاتھ میں پکڑا ڈبا بھاری ہوتا گیا۔ کسی ہوٹل سے کھانا کھایا حتی کہ سہ پہر ہو گئی۔ اب مجھے یہ خیال ستانے لگا بے وقوفوں کی طرح نکل تو آیا ہوں بندہ گھر کا اتا پتہ ہی دیکھ لیتا ہے۔ چاہے ٹوٹی ہوئی تھی چارپائی تو تھی سونے مرنے کو۔ اپنے آپ پر اتنا غصہ آیا کہ اگر اپنے اصل جسم میں ہوتا تو اس جسم کو جس میں اب تھا لازم پیٹ ڈالتا۔

ادھر اب تک جھجک بھی اتر چکی تھی اور بے شرموں کی طرح اللہ کے نام پر آتے جاتے سے مانگ رہا تھا لیکن میں نے عقلمندی یہ کی کہ ہاتھ کسی کے سامنے نہ پھیلایا کہ شرمندگی نہ ہو بس ڈبہ آگے کر دیتا اور کہتا اللہ کا واسطہ مجھے مصیبت سے نکالو۔ اب میں تو اس جسم کا کہہ رہا تھا لوگ پیسے دیتے جارہے تھے اور نہ کر کے میں کفران نعمت تو نہیں کرسکتا تھا۔

مجھے شک پڑا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ اب کیا پتہ اس جسم والے نے اب تک کیا کیا کارنامے سرانجام دیے تھے۔ کسی کے پیسے چوری کیے ہوں جو کہ ابے کی سخت گیری کے سامنے عین ممکن تھا، کسی لڑکی کو چھیڑا ہو جو کہ میں شیشے میں دیکھے بغیر ہی کسی لڑکی کو دیکھ کر رال ٹپکتے محسوس کر سکتا تھا، کہیں لڑائی کی تھی جو کہ پھٹے گریبان کو دیکھتے ہو بالکل ہو سکتی تھی۔

آخر اس بندے نے مجھے آن ہی لیا۔ اس نے سر کو سوالیہ انداز میں ہلا کر سوال پوچھا اور میں نے ویسا ہی اشارہ کرکے پوچھا کیا تکلیف ہے۔ وہ بولا کب آئےہو؟ میں نے کہا ابا کی ڈائری کے مطابق تو انیس جون انیس سو اسی۔ وہ ہنس پڑا اور بولا نہیں کب سے—ایسے- ہو؟ بے اختیار میرے منہ سے نکلا آج صبح سے۔ وہ ہنس پڑا۔ مجھے لگا میرا مسیحا مل گیا ہے۔ میں نے کہا ابے کدھر مرا تھا میرے کو کس مصیبت میں پھنسا گیا۔ پر تو نے میرے کو پہچانا کیسے؟؟ وہ ہنسا بولا بیٹا ہم جیسوں کے چہرے پر ایک خاص قسم کی بوکھلاہٹ ہے۔ بیٹا ہو گا تیرا باپ تمیز سے بولیو۔ میں بولا لیکن اس نے بولنا جاری رکھا۔جس کو دیکھو وہ اپنے حواس سے باہر ہے ، عام چول سے بھی چول ہے، شکل پر بارہ کی بجائے ایک سو بارہ بجے ہوں سمجھ لینا اس پر یہ مصیبت ٹوٹی ہے۔ کتنے جنے اس گھمن گھیری میں ۔ روز دو تین تو دِکھ ہی جاتے ہیں۔ یہاں تو سب ہی دل جلے ہیں لالے۔ مجھے اپنے جسم کے فضول ہندی ڈائیلاگ بولنے پر شرم آئی۔ اور میں نے اس سے کہا ابے برا مت مانیو یہ اس جسم کی بہن کا بھائی بول ریا ہے میں تو کتی کے بچے کو آپ جناب کہہ کر بلاتا ہوں۔ وہ مسکرایا اور بولا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم جیسے دو دس منٹ سے زیادہ اکٹھے رہیں تو مسئلہ ہوجاتا ہے تو میں چلتا ہوں—میں چیخ کر بولا ابے بھینس کی آنکھ پھر کب ملے گا؟ وہ بولا کوئی نہ کوئی ڈھونڈ لے گا تمھیں – ابے یہ جسم کی دلالی کا کیا عذاب ہے؟ وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور گلی کے موڑ سے چیخ کر بولا رات بارہ بجے تاریخ بدلنے کے ساتھ جسم کی بھی ادلی کی بدلی۔ اور وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

سنڈریلا کی ماں کو آنٹی کہوں۔۔۔ بے اختیار میرے منہ سے بارہ بجے کا سن کر نکلا۔ چلو کچھ تو پتہ چلا۔ اور خوشی کی بات یہ تھی کہ میں اندر سے میں ہی تھا یعنی سوچتے وقت ابے تبے یا گالم گلوچ قطعاً میرے دل میں نہ آتا لیکن جیسے ہی میں بولتا پھول جھڑنے لگتے۔ میں نے شکر ادا کیا کہ ابھی یہ تحریف شدہ گالیاں نکل رہی تھیں اصل نکل آتیں تو میں کیا کرلیتا۔ لیکن یہ دو بندوں کے ملنے سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ لڑکے ، لڑکی کے ملنے سے مسئلہ تو کئی بار سنا تھا اب لڑکے لڑکے سے کیا ہوتا ہے؟ میرے پہلے سے رکے دماغ نے مزید رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ جیسے گاڑی پارک کرتے وقت آپ بریک دبا کر گیر میں ڈال دیتے ہیں اور پھر احتیاطاً ہینڈ بریک بھی کھینچ لیتے ہیں تو میرا دماغ اس ہینڈ بریک والی حالت میں آگیا۔

یہ رات بارہ بجے تک کہاں رہوں اب؟ گھر کا تو کوئی اتا پتہ نہ تھا۔ میں نے ایک اکیلی جگہ دیکھ کر پیسے گننا شروع کردیے۔ آٹھ ہزار تین سو اکیس روپے۔ مجھے اپنے بے جسم ہونے سے زیادہ بڑا دھچکہ لگا۔ بے دلی سے مانگنے پر یہ حال ہے یعنی آج والا ابا غلط نہیں کہہ رہا تھا پندرہ ہزار تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں نے اپنی ڈگریوں پر تین کی بجائے چھ حرف بھیجے اور سوچا ٹھیک ہو کر بس یہ فقیر والا شعبہ اپنانا ہے۔ نہ نوکری جانے ڈر، نہ باس کی چخ چخ، نہ گھاٹے کا خطرہ، نہ کرایے کی فکر بس گندے کپڑے پہنو اور پیسے گنتے پھرو۔ یہ جسم جسم کی سیاحت نئی حقیقتوں سے روشناس کرا رہی تھی۔ کسی نے سچ ہی کہا سفر وسیلہ ظفر ہے۔ خواہ وہ سفر انگریزی والا ہو یا اردو والا ۔

اماں کہا کرتی تھی انسان کو جب تک متواتر لتر پولے (جوتوں سے تواضع) نہ ملیں اس کا دماغ خراب ہونے لگتا ہے اور واقعی یہی حال میرا تھا کہ جب اماں رات کو گھر میں مارشل لا لگا دیتی تھی تو میں سوچتا تھا کیا عذاب آ جائے گا اگر میں اپنے یاروں کے ساتھ آخری شو دیکھ لوں گا یا روڈ پر کھڑے پان چباتے سیگرٹ کا کش لگاتے آتی جاتی لڑکیوں پر تبصرے کرتا رہوں گا لیکن آج جب میں مکمل آزاد تھا ، پیسے میرے پاس تھے، گھر کا کوئی اتا پتہ نہ تھا مجھے کوئی خوشی نہیں ہورہی تھی۔

میرا دماغ اب مسئلے کی طرف گیا۔ کیا ہو گا یہ سب۔ گویا کئی لوگ دوسرے جسموں میں آوارہ گردی کرتے پھر رہے ہیں؟ جسم نہ ہوئے کمپنی باغ ہو گیا جس کا دل کیا اٹھ کر سیر کرنے چل پڑا۔ عجیب بے ہودگی ہے۔ اور یہ دس منٹ اکٹھے کا کیا چکر ہے؟ کیا دس منٹ بعد دھماکہ ہوتا ہوگا اور دونوں بھسم؟ یا دونوں کے اکٹھے دس منٹ رہنے سے کوئی تیسرا پیدا ہوجاتا ہے ۔ مسئلہ تو ہے کہ اب وہ کس کو ابا کہے کس کو اماں؟ یا دس منٹ اکٹھے رہنے سے یہ منحوس چکر رات بارہ کی بجائے دن بارہ بجے پر چلا جائے گا یہ بھی مسئلہ ہے پتہ لگے آپ نہا رہے ہیں اور اگلے لمحے آپ تقریر فرما رہے ہیں۔ ادھر آپ پکا ارادہ کر چکے ہیں کہ آج کا سارا دن بستر میں گزاریں گے ادھر بارہ بجے ادھر آپ مارکیٹ میں بچوں کے پمپر لیتے پھر رہے ہیں۔

میں سوچنے لگا میں بھی کوئی انتہائی درجے کا چول بندہ ہوں آج نہیں تو کل تو آخر اپنے جسم میں واپس جانا ہو گا پھر وہی غربت وہی چخ چخ۔ یہ جو اللہ میاں موقع دے رہا ہے کیوں نہ کوئی پیسے ہی اوپر نیچے کر کے اپنے اکاؤنٹ میں ڈلوا لیتا۔ لیکن اکاؤنٹ آتا کہاں سے ہمیں تو کبھی بل بھرنے کے لیے چوکیدار نے بنک کے اندر نہیں جانے دیا تھا ہم بیچارے باہر والی کھڑکی سے دھوپ میں خوار ہوتے کجا اکاؤنٹ۔ مجھے غصہ آیا کہ گویا امیر لوگ چاہتے ہی نہیں کہ غریب بیچارے خوشحال ہوں بل بھی لینے اور وہ بھی باہر والی کھڑکی سے۔ جی چاہا اونچی آواز میں سوچوں تاکہ گالیاں تو نکل سکیں لیکن پہلے کیا کم دماغ خراب ہوا تھا جو باقی اب خود سے باتیں اونچی آواز مین کرنے کی کسر تھی اس لیے دل ہی دل میں سوچتا رہا۔

اب رات بارہ بجے کا اتنتظار تھا اور میں اس سوچ میں تھا کہ دیکھیں کل کیا ہو۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کل کو میں کوئی صدر، وزیراعظم یا وزیر کے جسم میں جاگوں تو میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اب کہ چولیاں نہیں ماروں گا بلکہ اپنے دن کا بھرپور طریقے سے گزارنا ہے۔ اگر کوئی عہدہ مل گیا تو میں نے وہ کام کرنے کا سوچنے لگا جس سے قوم کی بھلائی ہو۔ میں رشوت نہیں لوں گا، جو فائل عام بندے کی آئے گی اس پر دستخط کردوں گا، کسی غریب کو واپس نہیں لوٹاؤں گا اور ایسی اوٹ پٹانگ باتیں سوچتے سوچتے کوئی پتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی۔

آنکھ کھلی تو مجھے کچھ غیر طبعی سا محسوس ہوا۔ اب اٹھ بھی جا کرن۔ میں نیم کھلی آنکھوں سے دیکھنے لگا یہ کون کرن ہے جو میرے کمرے میں سو رہی تھی اور یہ خاتون جو کرن کو بلا رہی ہے کس پر غصہ کر رہی ہے۔ جب اس نے دو تین چار بار پھر کرن کرن کی گردن کی تو میں غصے میں اٹھ کر بیٹھ گیا وٹ دی ۔۔۔ میری زبان میں بریک لگ گئی میں ہی کرن تھا چھت اڑ کر آسمان سے جا لگی، آسمان میرے قدموں میں آن پڑا اور زمین میرے سر پر پوری شدت سے آ گری ۔ کتنی بار کہا انگریزی میں بکواس نہ کیا کر۔ چل اٹھ کالج نہیں جانا۔ میں نے اپنا سر تھام لیا اور پھر گھبرا کر چھوڑ دیا کہ کبھی کسی غیر محرم لڑکی کو چھوا نہ تھا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ویسے تو کبھی لڑکی بھی نہ بنا تھا پہلا ہی تجربہ تھا۔ مجھے ہر وہ لڑکی باری باری دماغ میں گھومنے لگی جس پر میں نے رال ٹپکائی تھی۔ میرا بس نہ چلتا تھا میں کیا کرتا۔ میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولا بیٹا جیسے کو تیسا کا وقت آ گیا ہے۔ پھر بولا بیٹا نہیں بیٹی اور ہنستا بھی جاتا تھا اور میرے آنسو بھی نکلے جاتے تھے۔ (پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست)