February 20, 2015

سہیلی بوجھ پہیلی




جب چھوٹے تھے تو پوچھا کرتے تھے "پہیلی بوجھ سہیلی"۔ لیکن اب کوئی سہیلی نہ رہی اور سہیلی ویسے بھی گرل فرینڈ Girl friend کے زمرے میں آتی ہے اور ہم اس جھمیلے سے اتنے ہی دور واقع ہوئے ہیں جتنے آج کل کے شریف شرافت سے،  دوسرا سہیلی کا مذکر دوست کسی صورت مناسب نہیں لگتا اورہماری اپنی پخ 'سہیلا' عجیب اور بے وزن سا لگتا ہےاس لیے ہم کہیں گے "بوجھو تو جانیں" پورا اس لیے نہیں کہا کہ ہم تم کو بوجھنے پر بھی نہیں مانیں گے کہ بوجھ لیا تو اپنے زنگ آلود دماغ کو تھوڑا چلانے کی کوشش کی ہمارا کیا بھلا کیا۔
بہرحال ایک پرانی پہیلی ہے۔۔۔

ایک شخص کو کسی مقام پر جانے کے لیے جنگل میں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں دو قبائل آباد ہیں۔ ایک ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی روح کا رنگ کالا ہے جبکہ دوسرے ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ان کی روح کا رنگ سفید ہے۔ وہ شخص راستہ بھول جاتا ہے اور ایک دوراہے پر پہنچ جاتا ہے- اس کو پتہ ہے غلط راستہ اس کو آدم خوروں کے پاس پہنچا دے گا جب کہ درست راستہ اس کو بحفاظت جنگل سے باہر لے جائے گا- اس دوراہے پر ایک شخص کھڑا ہے لیکن وہ نہیں جانتا ہے یہ سفید روح والے قبیلے سے ہے یا کالی روح والے سے کہ بظاہر دونوں ایک سے دکھتے ہیں۔ اب وہ شخص محض ایک سوال پوچھ سکتا ہے کہ کونسے راستے پر جائے۔ وہ سوال کیا ہونا چاہیے؟

جس شخص نے یہ پہیلی بنائی اس کے پاس واضح طور پر دنیا بھر کا  وافر وقت تھا اور برسوں  سے اسے حل کرنے والوں کے پاس اس سے زیادہ فضول وقت۔ پہلی بات تو یہ ہے اس میں اتنی خامیاں ہیں کہ یہ سوال کرنے والے پر سوال بنتے ہیں کہ جب کسی نے روح دیکھی نہیں تو کیا الہام ہوا تھا کہ یہ اندر سے کالا ہے یا گورا ہے؟ اور چلو کسی خورد بین یا ایکسرے سے انہوں نے دیکھ بھی لیا تو سچ بولنے والے سفید کیوں۔

لازمی یہ کسی گورے کے کام ہیں کہ نسل پرست کالوں کو بدتر سمجھتے ہیں ۔ بس ہمارے سے اس لیے بچ جاتے ہیں کہ ہم خود کالوں کو پسند نہیں کرتے وگرنہ  فیئر اینڈ لولی  Fair and lovely کی اتنی مانگ نہ ہوتی پاکستان میں۔ لڑکیاں تو لڑکیاں اب تو لڑکے بھی تھریڈنگ اور فیشل ایسے ذوق و شوق سے کراتے ہیں جیسے کسی زمانے میں شیو کیا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ حجاموں کو احساس نہیں ہوا وگرنہ اصل میں یہ ترقی نہیں بلکہ ان کے خلاف سازش ہے کہ ایک زمانے میں حجام جو تب نائی ہوا کرتے تھے لگے ہاتھوں بغل کے بال بھی صاف کر دیا کرتے تھے ۔ زمانے نے ترقی کی تو حجاموں کی دکان پر یہ بورڈ دیکھنے کو ملا کہ "یہاں بغل کے بال صاف نہیں کیے جاتے" تو لوگوں نے سوچا چلو جسم کے نہ سہی چہرے کے ناپسندیدہ بال ہی سہی۔

لیکن رنگ نہ سہی اعمالوں سے سہی یہ پہیلی پاکستانیوں کے خلاف سازش ضرور ہے کہ اب بھلا آدم خور کہاں پائے جاتے ہیں۔ جب جب وہ کہتے ہیں وہاں پر آدم خور قبائل پائے جاتے ہیں پتہ نہیں کیوں میری اساڑھے پانچویں حس چیخ چیخ کر کہتی ہے "بابو یہ آدم خور قبائل کی طرف والے راستے کا مطلب پاکستان ہے"۔ اب پتہ نہیں اس میں میرے دماغ کی خرابی ہے یا حالیہ دنوں میں ہونے والے دھماکوں کی خرابی۔

جب پہلی پوچھنے والوں سے یہ سوال پوچھے گئے تو انہوں نے تنگ آ کر تھوڑی تبدیلی کر دی کہ قبائل اصل میں کالی اور سفید روح والے نہیں بلکہ کالے اور سفید پاؤں والے ہیں۔ یعنی دو قبائل آباد ہیں ایک وہ جن کے پاؤں سفید ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں جبکہ ایک کالے پیروں (یہ پیر و مرید والا پیر نہیں بلکہ جوتوں میں ڈالنے والے پیر ہیں کہ کالے پیر سے خیال کالے کرتوتوں والے پیروں اور ان کے مریدوں کی طرف ہی جاتا ہے) والے جو ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور جس سے سوال پوچھنا ہے اس نے جرابیں پہنی ہیں لہذا نہیں پتہ کہ وہ کونسے قبیلے ہے۔

اب جس نے یہ ترمیم کی اس کی عقل کو بھی سات سلام کہ پہلی بات نسل پرستی تو ویسے کی ویسے رہی اور اوپر سے اچھے بھلے انسان کو کالے اور سفید پاؤں میں تقسیم کردیا کہ پہلے بھلا حضرت انسان نے تقسیم کے تھوڑے فارمولے ایجاد کر رکھے ہیں جو ایک اور پیش کیا گیا ہے اور ویسے بھی یہ سیفد پا اور سیاہ پا سے فیل پا اور ایک پرندہ نیل پا بوبی blue footed booby کی یاد آتی ہے کہ اس پرندے کے پاؤں نیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ تصویر دیکھیں۔

نیل پا بوبی

اچھا اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک سوال ہی کیوں پوچھ سکتا ہے؟ کیا وہ کون بنے گا کروڑ پتی کھیل رہا ہے بلکہ کون بنے گا کروڑ پتی میں بھی فون فرینڈ یا ففٹی ففٹی یا حاضرین کی رائے معلوم کر سکتے ہیں یوں تو یہ کون بنے گا کروڑ پتی سے بھی بدتر پروگرام ہوا اور ایک سوال ہی کیوں دوسرا سوال پوچھنے پر ٹیکس لگتا ہے یا دوسرا سوال پوچھنا قانونی طور پر منع ہے یا اگر ایک ہی سوال پوچھنا ہے تو تمام علاقے میں وہ ایک ہی بندہ ہے کیا؟

اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے یہ پہیلی بنانے والے نیلام گھر کے شوقین تھے کہ ایک تو نیلام گھر پروگرام ہی اتنا پرانا ہے دوسرا یہ کہ سوال پوچھا جواب آگیا تو انعام وگرنہ آرام۔ حالانکہ اس سے بہتر کسوٹی تھا کہ بیس سوال ہیں جو مرضی پوچھ لیں۔ اب ایک سوال کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ جواب مل پائے گا کہ بندہ سوال میں گالی گھسیڑ دے کہ میں خود ایسے کئی لوگوں سے واقف ہوں جو گالی دینے کے واسطے ہی کسی سے بات کرتے ہیں تو اگر وہاں ویسے دو قبیل کے افراد پائے جاتے ہیں تو اس تیسرے میں کیا حرج ہے اور اگر ایسا ہو تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ جواب زبان سے ہی پائے گا کہ گارنٹی تو شرافت کے ساتھ ہی پاکستان سے مفتود ہو چکی ہے۔

مزید برآں اس نے جرابیں کیوں پہن رکھی ہیں؟ کیا اس کو حکومت پاکستان کی اس پالیسی کا پتہ نہیں چلا جس میں اس نے دفاتر میں جرابیں پہننے کی حوصلہ شکنی کی ٹھانی تھی تاکہ بجلی کی بچت کی جاسکے اور چلو سردیوں میں جرابیں پہننے کی سمجھ بھی آتی ہے لیکن قبائل کے زمانے میں کونسے کپڑے جرابیں ہوتی تھیں مان لیا ہوتی تھیں کوئی اس زمانے کا ترقی یافتہ قبیلہ تھا تو اگر گرمیاں ہوئیں تو اس نے جرابیں کیوں پہنی ہوں گی؟ لیکن اگر عقل کے پیمانے پر تولیں تو اکثر پہلیاں اس زمانے میں ہی موت سے ہمکنار ہوں جب پہیلی زچہ کے اندر بچہ بھی نہ بنی ہو۔

المختصر اور الجامع یہ اور ایسی تمام دوسری پہلیاں محض دماغ کی خرابی کے باعث اور دماغ کی خرابی پھیلانے کو ایجاد کی گئی ہیں وگرنہ ان کا حقیقی دنیا سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ہم گیارہویں اور بارہویں میں ڈیریوٹیوزderivative اور اینٹی ڈیریوٹیوز antiderivatives ریاضی کے طور پر پڑھتے ہیں کہ ضرب تقسیم کے بعد ریاضی سے افہام و تفہیم اور عقل سلیم ختم ہو جاتی ہے لیکن ہم اللہ جانے کیوں ان چیزوں کو پڑھتے جاتےہیں جنکے عملی زندگی میں ہمیں ہجے بھی بھول جانے ہیں۔

اگر آپ پہلی کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ وہ بندہ پوچھے گا، " اگر آپ دوسرے قبیلے کے رکن ہوتے اور میں آپ سے پوچھتا کہ کون سا راستہ محفوظ ہے تو آپ کیا جواب دیتے"۔ پوچھ لیا سوال ، ہو گیا سکون۔ اب جو وہ جواب دے اس کے مخالف راستے پر چل پڑیں۔ یعنی کوئی جنگل نہ ہوا لاہور ہو گیا کہ ہمیں کسی نے کہا تھا لاہور جا کر کسی سے راستی پوچھیں تو سننے کے بعد بنا کسی جھجک کے اس کے مخالف چل پڑیں کہ لاہور میں کوئی درست راستہ نہیں بتاتا۔ بتائیں یہ پہیلی قابل اعتراض ہے کہ نہیں؟

پس تحریر: اس کی لاجک یہ ہے کہ سفید روح والا آپ کو کالی روح والے کے جھوٹ کے بارے سچ بتائے گا جبکہ کالی روح والا آپ کو سفید روح والے کے بارے جھوٹ بتائے گا تو ہر دو صورتوں میں آپ کو جھوٹ ہی سننے کو ملے گا۔ اگر آپ کا دماغ بھی میرے دماغ جتنا قابل ہے تو مزید تفصیل سے سمجھیں کہ فرض کریں دائیں طرف آدم خور ہیں اور بائیں طرف منزل تو جب آپ سیفد روح والے سے پوچھیں گے راستہ تو وہ بتائے گا بائیں جائیں لیکن اگر اس سے پوچھیں کہ اگر وہ جھوٹ بولنے والا ہوتا تو کیا بتاتا تو وہ بتائے گا دائیں۔ اسی طرح کالی روح والا بتائے گا بائیں لیکن اگر اس سے پوچھیں گے کہ اگر وہ سچ بولنے والا ہوتا تو؟ تب بھی اس نے بائیں ہی بتانا ہے کہ اگر اتنا ہی وہ سچو دانہ (ہمیشہ سچ بولنے والا) تو اس کی روح سفید نہ ہوتی۔