August 11, 2015

لاہور چڑیا گھر میں حیران اور پریشان




میرے جانوروں اور پرندوں کے شوق سے تو ہر وہ بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے جو کبھی غلطی سے بھی میرے بلاگ کے
 پچاس میٹر نزدیک سے گزرا ہو۔ اتنا تو عاشق ناکامی کے بعد شعر کہنے اور آہیں بھرنے پر زور نہیں دیتے جتنا ہم نے بلا وجہ جانوروں پرندوں پر دے ڈالا ہے اور اتنا ڈالا ہے خطرہ ہے کہیں بیچارے ہمارے بوجھ سے دب کر مر ہی نہ جائیں۔ نجانے کونسا لمحہ تھا جب دل اس جانب کھچا گیا اور ایسا گیا کہ کسی نے وہاں ہی باندھ کر ڈال دیا۔ اب آئی بھگتانی تو ہے ہم نے بھی کیمرہ لٹکایا گلے سے اور نعرہ جد آدم بو لگاتے ہوئے جنگلوں کی راہ لی- اللہ پوچھے انگریزوں سے ایک تو جانور پرندے چڑیا گھر میں بند کر دیے اوپر سے لینز کی سیل لگا دی بس وہ وقت جو ہم اس سوچ میں گزارتے کہ کس جنگل جائیں؟ جنگل جائیں تو جانور دل پر نہ لے لیں، دل پر لے کر غصہ ہی نہ کر جائیں لہذا نہیں جاتے وہ وقت ہم چڑیا گھروں کی تلاش اور سیر میں گزارنے لگے۔


جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں کہ پہلا چڑیا گھر بہاولپور کا دیکھا تھا اور تب دیکھا تھا جب اپنے نام کے ہجے کرنے نہ آتے تھے جانوروں کو خاک پہچانتے۔ پھر لاہور چڑیا گھر بھی پہنچ گئے اور یہ بات ہے 1991 کی لیکن معاملہ وہاں بھی بس ہاشے تماشے تک محدود رہا- یورپ میں جب دس سے زیادہ چڑیا گھر گھوم لیے اور ان کی تصاویر اپنے بلاگ برڈزاینمیل ڈات ورڈ پریس ڈاٹ کامwww.birdsanimals.wordpress.com پر ڈال دیں تو خیال آیا کتنے افسوس کی بات ہے دنیا کے چڑیا گھر اور انکے جانور تو بلاگ پر ڈال دیے اور اپنے ملک کے چڑیا گھر اس سے محروم ہیں لہذا منصوبہ بنایا کہ جیسے ہو لاہور اور بہاولپور کے چڑیا گھر گھومنے ہیں، وہاں کی تصاویر لینی ہیں اور ان کو بلاگ پر ڈالنا ہے۔

ویسے تو میں نے ملتان میں ہی پچاس ساٹھ پرندوں کی تصاویر لی ہیں لیکن چڑیا گھر کی بات الگ ہے اور جب باقی دنیا کے چڑیا گھر ہو گئے تو اپنے چڑیا گھر کیوں نہ آئیں اور ویسے بھی گوگل پر لاہور چڑیا گھر یا بہاولپور چڑیا گھر لکھ کر جب سرچ کرتا دو ٹانگوں والے جاندار ہی آ جاتے۔

چونکہ ہماری حکومتوں کی مہربانی سے ملتان ہوائی اڈا جتنا تاخیر کا شکار ہو سکتا تھا اس سے بھی زیادہ وقت میں تعمیر ہوا لہذا ابھی تک آنا جانا ملتان ہوائی اڈے سے شروع نہیں ہوا تو میں نے اس بار لاہور سے آنے کا فیصلہ کیا جس میں اصل مقصد چڑیا گھر کا دیدار تھا۔

چڑیا گھر میں سب سے پہلے تو حیرانی ہوئی کہ میری امید سے کہیں بڑا تھا چڑیا گھر- وکیپیڈیا کے مطابق جنوبی ایشیا کا سب سے پرانا اور سب سے بڑے چڑیا گھروں میں سے ایک چڑیا گھر ہے جو باہر سے گزرتے تو کہیں سے نہیں لگتا تھا لیکن اندر جا کر بڑے کا بھی یقین آیا اور پنجروں کی حالت زار دیکھ کر پرانے کا بھی یقین آ گیا- جانوروں کی تعداد دیکھ کر خوشی بھی بہت ہوئی کہ ایک بار پھر میری امید سے کہیں زیادہ جانور وہاں موجود تھے تاہم بہت سے انتہائی بوڑھے اور کمزور ہو چکے تھے اور بہت سے ایسے تھے جنکا کوئی پتہ نہیں اویں ہی بھول بھلا کر آگئے یا انہوں نے ہی رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد تھا کہ سنہ 91 میں سفید شیر کے جنگلے میں ٹائلیں لگی تھیں اور ایک چھوٹا سا تالاب بنا تھا – جب شیر کے پنجرے کے پاس پہنچا تو وہ پنجرا ویسے کا ویسے تھا تاہم شیر کی ہڈیاں جنگلے کی سلاخوں سے بھی مہین ہو چکی تھیں اور اس کے چلنے پر خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ اب ماس پھاڑ کر نکلیں کہ اب نکلیں۔
پنجرہ اور باہر لگے بورڈ کی حالت- فنچز بھی چڑیاں مکھی خور بھی چڑی- سب چڑی مار جمع ہیں
وارسا چڑیا گھر پولینڈ میں- پرندے کی تصویر، تفصیل، نام اور نقشے میں پرندے کا آبائی وطن

ہلسنکی چڑیا گھر فن لینڈ میں- پرندے کی تفصیل، شکل، نقشے میں آبائی علاقہ اور دو زبانوں میں تفصیل
تالن چڑیا گھر استونیا میں- پرندے کا تین زبانوں میں نام، پرندے کی نسل کو خطرے کا مقام، تفصیل اور نقشے میں آبائی وطن کی نشاندہی

جیسے جیسے چڑیا گھر گھومتا گیا ویسے ویسے افسوس بڑھتا گیا کہ چڑیا گھر کیا تھا ایک چھوٹا سا پاکستان تھا جو ایسے ہی چل رہا تھا جیسے پاکستان چل رہا ہے یعنی اللہ کے آسرے پر- حالانکہ چڑیا گھر میں نہ جانوروں کی کمی تھی نہ پنجروں کی اور نہ ہی پاکستان میں وسائل کی لیکن بس جو ہے جیسے ہے چلنے دو-

جیسا کے باہر کے ملکوں میں اب ہر چڑیا گھر میں تتلی گھر، ایمزان گھر، خزندہ گھر، مچھلی گھر قسم کی چیز ہوتی ہے جس میں ایک طرح کے، ایک علاقے کے جانور اکٹھے رکھے جاتے ہیں اور ان میں اکثر کھلے ہوتے ہیں یعنی یوں سمجھیں آُ ایک چھوٹے سے جنگل میں داخل ہوگئے تو ایسا ہی ایک سانپ گھر یہاں بھی ہے جو شیشوں کے پیچھے رینگت سانپوں پر مشتمل تھا تاہم کسی عقلمند نے ایک آدھ پنجرے میں چلو بھر پانی بھی رکھ چھوڑا تھا کہ شاید جانوروں کے ہی کام آجائے ہمارے لیے تو ہر شے بے اثر ہو چکی-

پچھلے دنوں اخبار میں خبر چھپی تھی کہ آصفہ بھٹو صاحبہ نے کراچی چڑیا گھر دورہ کیا جس میں تمام لوگوں کو اندر داخلے سے منع کر دیا گیا تھا- ہمیں باہر موجود لوگوں سے قطعاً ہمدردی نہیں کہ پاکستان میں عام لوگ ویسے ہی بیچارے قربانی کا بکرا ہیں ہمیں افسوس ان جانوروں سے ہے جنکی حالات زار اس وی آئی پی ٹور اور اس جیسے ہمارے بڑوں کے بچوں کے دورے کے بعد بھی نہیں بدلتی- کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے زندگی میں کچھ نہیں دیکھا ہوتا اور وہ شہر کی اسٹریٹ لائٹس کی بتیاں جو مہینے میں ایک بار ہی جلتی دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں لیکن یہ لوگ تو دنیا جہان دیکھ چکے ہیں ان کو خیال نہیں آتا کہ وہاں اور یہاں میں کتنا فرق ہے چلو انسان تو مر رہا ہے کوئی ایک چڑیا گھر کا ہی ٹھیکہ اٹھا لے- ادھر ٹھیکہ اٹھاتی بھی ہے تو میرا بی بی جو دو ہرن کے چلڈرنز کو گود لے کر فوٹو کھینچوا کر انگریزی کی ٹانگ توڑ کر جو کہ توڑنی بھی چاہیے چل دیتی ہے- یقین مانیں مجھے تو آکسفورڈ اور پرسٹن یونیورسٹی جس کو یہاں پرستان یونیورسٹی کہا جاتا تھا اور جو ایچ ای سی HEC سے منظور شدہ بھی نہیں تھی ایک برابر لگتے ہیں کہ اللہ جانے وہاں ان بچوں کو کیا پڑھاتے ہیں کہ ایک بندہ نئی نسل کا نہیں ملا جو آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا ہو اور عقل، سوچ رکھتا ہو۔

اب چونکہ ہمارا دماغ بذات خود شتر بے مہار ہے تو ہم نے تنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ریاستی کہاوت کے مطابق نیت نیک تے تھیندا ڈیکھ کے مصداق اس چڑیا گھر کو سدھارنا کوئی سوئی بنانے جیسا مشکل کام نہیں بس نیت نیک ہونی چاہیے۔

سب سے پہلے تو جانوروں کے ناموں تک کے بارے بے احتیاطی کی گئی ہے- اگر کوئی ماہر حیوانات اس چڑیا گھر کا انچارج ہوتا تو اس کو پتہ ہوتا کہ ہر جانور کا ایک سائنسی نام ہے اور یہاں آدھے سے زیادہ جانوروں کا سائنسی نام ہی غائب تھا۔ جو بورڈ لگے تھے وہ بس یوں سمجھیں کسی کو سو روپے دیکر پینٹ کرائے گئے تھے اور کسی نے یہ تک نہیں احتیاظ کی کہ تمام چڑیا گھروں میں ایک سے بورڈ ہونے چاہیہں۔  جبکہ باہر کے چڑیا گھروں میں جانور کے باہر جانور کا سائسنی نام ، مقامی زبان میں اس کی تفصیل کہ کہاں پایا جاتا ہے، دیکھنے میں کیسا ہوتا ہے، عمر کتنی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ کی تفصیل ہوتی ہے اور ادھر رہےنام اللہ کا۔ دوسرا یہ کہ شیر خود کوئی جانور نہیں بلکہ ایک جنس ہے بنگالی شیر، سماٹرا شیر اصل جانور ہیں اور چڑیا گھر جو کہ کسی بھی شہر کے لیے سب سے زیادہ اہم ذریعہ ہے جانوروں سے آگاہی کا وہاں شیر، چیتا، تیندوا دیکھ کر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے کہ نہ ہی کوئی ماہر حیوانات اس چڑیا گھر سے وابستہ ہے اور نہ ہی کسی نے اس جانب توجہ دلائی ہے-

 ایک پنجرے کے باہر لکھا تھا پانی کا کچھوا اور انگریزی واٹر ٹرٹل water turtle- اب اتنا بھی نہیں پتہ ان کو پانی کا کچھوا یا واٹر ٹرٹل نامی کوئی مخلوق دنیا میں نہیں پائی جاتی کیا کوئی بندہ ایسا نہیں جس کو گوگل استعمال کرنا آتا ہو۔ ایک سرچ کی مار ہے سارا۔

ایسے ہی بھورے ریچھوں کی آمد کو بڑا شور مچا لیکن کہیں سے پتہ نہین لگ سکا کہ وہ بھورے ریچھ کی 20 کے لگ بھگ قسموں میں سے کون سی ہے- اور آپس کی بات ہے کہ ہمالیائی بھورا ریچھ جو پاکستان میں پایا جاتا ہے دنیا کے نایاب ترین ریچھوں میں سے ایک ہے-

ادھر پنجروں کی وہ حالت ہے کہ نہ پوچھیں- باہر کے ملکوں میں پنجروں کے اندر درخت اگائے گئے ہیں تاکہ پرندوں کو قدرتی ماحول ملے ادھر انہوں نے ٹائلیں اور اینٹیں لگا رکھی ہے۔ باہر آپ جائیں تو باقاعدہ ہال بنے ہوتے ہیں جہاں آپ اندر جا کر بغیر کسی جالی کے سلاخ کے پرندوں کو اصل ماحول میں دیکھ سکتے ہیں۔ ادھر یہ حال ہے کہ آپ گیدڑ کی تصویر کھینچ کر دکھا دیں- ایسے سلاخیں در سلاخیں لگائی ہیں کہ گیدڑ نہ ہو گیا کوئی شیطان ہو گیا کہ کہین فرار نہ ہوجائے۔

یوں تو لاہور چڑیا گھر میں ایک بڑا سا ہال نما میدان ہے جس کو جالی سے ڈھکا ہوا ہے اس میں لوگوں کو اندر جانے دیا جا سکتا ہے اور وہ لوگوں کے لیے ایک بہت نئی قسم کی کشش ہوگی- پہلے میں نے سوچا شاید اس لیے نہیں کرتے کہ دیکھنے والے پاکستانی ہیں کوئی پتہ نہیں واپسی پر آدھے پرندے غائب ہوں لیکن سنا ہے کہ اسلام آباد میں راول جھیل کے کنارے ایسا تجربہ کامیابی سے کیا جا چکا ہے تو یہاں کیوں نہیں۔ بس وہی ڈنگ ٹپاؤ کام –

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھے پرندوں و جانوروں کے حصول کے لیے اربوں خرچ کرنے ہوں گے تو مزید پرندوں و جانوروں کا حصول بھی کوئی ایسا مہنگا کام نہیں- کچھ بھی نہ کریں اور صرف ایک پاکستانی جانوروں و پرندوں کا انکلوژر بنا دیں۔ بھلا پاکستان میں پرندوں کی کمی ہے کیا؟ اور جانور تو جا بجا مل جاتے ہیں- اگر میں ساٹھ ستر مختلف پرندوں کی تصاویر ایک ہی گاؤں میں اتار سکتا ہوں تو ان کے لیے ان پرندوں کو پکڑنا اور پالنا کیا مسئلہ ہے- سندھ ڈالفن ہے جو دنیا میں صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے، مارخور ہے، برفانی چیتا (تندوا) ہے جس کو دنیا کے کئی چڑیا گھروں میں بطور خاص رکھا گیا ہے اور اس کی نسل بڑھائی گئی ہے جبکہ ادھر تو بیچارہ شمالی علاقہ جات میں خدائی خوار بنا پھر رہا ہے، ہمالیائی ریچھ ہے، پھر خزندے ہیں کئی چھپکلیوں کی نسلیں ایسی ہیں جو صرف پاکستان میں ہی پائی جاتی ہیں جیسے فورٹ منرو گیکو، کوہ سلمان گیکو وغیرہ، پھر بلوچی تھیرم baluchitherium ہے جو اب تک دنیا میں پایا جانے والا سب سے بڑا ممالیہ ہے حتی کہ ڈائنو سار سے بھی بڑا اور ہمارے بلوچستان میں پایا جاتا تھا، چکور ہے، کتنے ہی عقاب ، گدھ پاکستان میں سردیاں گزارنے آتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہہ چکا کہ اصل مسئلہ نیت کا ہے وگرنہ دنیا کے اس قدیم ترین چڑیا گھروں میں سے ایک پر تھوڑی سی محنت کر کے تمام دنیا کے جانوروں سے محبت رکھنے والوں کو ادھر متوجہ کیا جا سکتا ہے- اور ان جانوروں کے حصول کے لیے تمام ملک میں پھیلے گیم وارڈن کو کہا جا سکتا ہے جنکا موجودہ کام فقط بڑی پارٹیوں سے پیسے لیکر لوگوں کو شکار کھلوانا ہے- اور اگر اتنا خرچ بھی نہیں کرنا اور ایسے ہی کام چلانا ہے تو چڑیا گھر کے سامنے سڑک کی دوسری طرف قائم چَریا گھروں میں جہان عام لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے موجود سفید ہاتھیوں اور اپنے آبا (بقول ڈارون) کے جانشینوں پر ہی ٹکٹ لگا دیں کہ جتنا ان پر بجٹ خرچ کیا جارہا ہے یقین مانیں اس سے زیادہ وصول ہو جائے گا۔

Lahore chiria ghar main heran or pershan