September 1, 2015

سرد جنگ، خلائی مخلوق اور چُھٹی حس


 جیسا کہ آپ خبروں میں پڑھ چکے ہوں گے اور اگر نہیں پڑھ چکے تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ ناسا کے ایک سابق خلا باز جن 
کا نام ایڈگر مچل Edgar Mitchell ہے جو اپالو 14 جہاز پر چاند پر گئے اور دنیا کے چھٹے شخص بنے جنہوں نے چاند پر قدم رنجہ فرمایا بلکہ رنجہ کم فرمایا رنجیدہ زیادہ فرمایا کہ جب کے وہاں سے ہو کر آئے اوٹ پٹانگ بیان داغتے رہتے ہیں جن میں سے تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ سرد جنگ میں خلائی مخلوق نے روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ نہیں ہونے دی۔ موصوف کا بیان پڑھ کر یک گونہ اطمینان ہوا کہ چولیں مارنا صرف ہمارا ہی قومی اثاثہ نہیں بلکہ اور قومیں بھی اپنا اپنا حصہ بخوبی ادا کر رہی ہیں-

ویسے ایمان کی بات تو یہ ہے کہ میری ہمدردی خلائی مخلوق aliens کے ساتھ ہے کہ یورپ میں ہم غیر ملکی جو ویزا لینے جاتے ہیں کو بھی ایلینز ہی کہا جاتا ہے اور کئی بار چھوٹے شہروں میں لوگوں نے جس نظر سے دیکھا وہ ایسی ہی نظر تھی جس سے خلائی مخلوق کو دیکھا جاتا ہے کہ ''اؤئے یہ کونسے سیارے کی مخلوق آ گئی'' اور ہم جو اتنا پکا رنگ رکھتے ہیں کہ عرفیت 'کالو' پڑ گئی ہے کو لوگ ایسے دیکھتے تھے کہ ''ہائے اللہ کیڈا سوہنا جوان اے''۔ تو ہو سکتا ہے موصوف کے کہنے کا مطلب ہم خلائی مخلوق ہیں اور چونکہ دنیا میں کسی کو جوئیں بھی پڑ جائیں تو فیشن اور رواج یہ ہے کہ اس کے ڈانڈے پاکستان سے آ ملتے ہیں تو ان کا اشارہ بھی اپنی طرف ہو۔

ویسے اس بیان سے مجھے ہمارے بےچارے ریٹائرڈ افسران پر سے گلہ ختم ہو گیا ہے- توجہ کے طالب ایک ہم ہی نہیں وہ بھی ہیں- جب وہ کرسی پر تھے تو بس قسمت والی فائلیں ہی ان کے دستخط کا اعزاز حاصل کر سکیں لیکن چَھٹی حس اور چُھٹی حس ایک برابر ہیں تو اب انہوں نے سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ وہ فائل جس کو انبار تلے دبا دیکھ کر ان کی ہمت ہی نہ ہو سکی کہ نکال کر اس میں لگی تصویریں ہی دیکھ لیں دراصل ان کی چھٹی حس کا انتباہ تھا کہ اگر اس پر دستخط کر دیا تو پاکستان کیا خود ہستی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی اور وہ فائل جو ان کے چپڑاسی نے ہزار روپے کے عوض روز فائلوں کے مینار کی چوٹی پر رکھ دیا کہ کسی دن تو صاحب کا دل مچلے گا اور آخر ایک دن بوریت سے تنگ آ کر انہوں نے اس پر دستخط کر دیے درحقیقت پاکستان کی بقا کا واحد راز تھا- ایسے ہی دنیا کے چند ہی افراد ہیں جنہوں نے چاند پر قدم رکھا ہے اور ایسے لوگ اگر ایسے بیان دیں گے تو وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ چاند پر مشن اس لیے ختم ہو گئے کہ خلا بازوں کے ہوش اڑ گئے اور ناسا کے ہوش ٹھکانے آ گئے والی بات درست ہی معلوم ہوتی ہے۔

ایک سازشی پکوڑا یہ بھی ہے کہ انسان چاند پر گیا ہی نہیں یہ سب امریکہ کا میڈیا ڈرامہ تھا- اگر ایسا سمجھا جائے تو انہوں نے خلا بازوں کو کوئی سفوف ملا کر پلایا کہ جب ہمیں ہوش میں آیا تو ہم چاند پر پہنچ چکے تھے ہو سکتا ہے موصوف کو ساقی نے شراب میں کچھ زیادہ ہی ملا دیا ہو یا اگر وہ بھی ڈرامے کے کردار تھے تو موصوف ان ادا کاروں میں سے تھے جو کردار میں اتنا ڈوبتے ہیں کہ اوور ایکٹنگ کر بیٹھتے ہیں یا اصلی زندگی میں بھی خود کو جاگیردار کا کردار ادا کر کر کے سمجھنے لگتے ہیں جبکہ اصل میں ان کو جاگیر اور دار کا فرق ہی نہیں معلوم ہوتا۔

یوں تو ہمیں اس بیان کے بعد کبوتر باز اور چاند باز میں چنداں فرق معلوم نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ کبوتر باز اڑتے کبوتر کو دیکھ کر ہاؤ ہو کرتا ہے جبکہ چاند باز کبوتر کے مر کھپ جانے کے بعد ہاؤ ہو کررہا ہے تو ایسے ہی فرماتے ہیں کہ امریکہ کے کئی میزائل تجربات خلائی مخلوق نے پھس کردیے سے ہمیں ہماری بچپن کی ایک اختراع یاد آگئی کہ ہمارے جن کزنوں کو جوئیں ہوتی تھیں ہم ایک فرضی سا شاور نما تصویر بنا کر کہتے تھے یہ جوں کیچر Catcher ہے (اس آلے کے بارے مزید تفصیل ادھر پڑھیں) ہو سکتا ہے خلائی مخلوق نے ہمارے اس منصوبے ہر ہاتھ صاف کر کے ایک میزائل کیچر بنا ڈالا ہو کہ ادھر میزائل فائر ہوا ادھر کیچر نے پکڑ کر ناخنوں پر کِڑچ کر کے خون بہا ادا کردیا۔

ویسے تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ امریکی ان کے زیادہ سگے تھے جو ان کو روکا گیا اور اگر ان کو نہیں روکا گیا تو کیا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی جنگ کو روکے ہیں؟ لیکن ہم تو خلائی مخلوق کو مانتے نہیں تو کیا ہماری طرف وہ جنات، ہمزاد، بابوں اور پچھل پیروں کی شکل میں آئے ہوں گے کہ ہم تو ویسے ہی تیسری دنیا کی مخلوق ہیں ہم سے خلائی مخلوق کا کیا لینا دینا اور کیا خلائی مخلوق نے مرنا ہے جو ہماری آبادیوں میں گھسے۔ ہم تو بھائی اردو/ ہندی سائنس فکشن برداشت نہیں کر سکتے کہ انگریزی اور خلائی مخلوق گوروں کی زیب دیتے ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ ان کے جنگ نہ کرنے دینے کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ بھائی پہلے ہی بہت تباہی ہو چکی ہے مزید کی ضرورت نہیں- کہ جب مکھی لتر سے مر سکتی ہے تو توپ چلانی کیا لازمی ہے؟ یا پھر مزائل سے ان کے بچے ڈسٹرب ہوتے ہوں گے جیسے گھروں کرکٹ میں کھیلنے والے بچوں کے ایک منحوس انکل یا آنٹی کا گھر بھی ہوتا ہے جہاں سے گیند اٹھانے وہی جاتا ہے جس کو سزا دینی مقصود ہو۔ ہو سکتا ہے وہ وہی منحوس انکل/ آنٹی ہوں کہ نہ کھیل ہو گا نہ گھر میں گیند آئے گی یا ان کے گھر میں کوئی جوان لڑکی ہو اور وہ ہم زمین والوں کے کرتوتوں سے بخوبی واقف ہوں۔

ویسے ایک بات تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خلائی مخلوق چونکہ چاند سے آئی اور وہ سرد علاقہ ہے لہذا اس کو سرد چیزیں پسند آتی ہوں مثلاً سرد خانہ، سرد جنگ اسی لیے اسی نے کہا ہو کہ بھائی بس ٹھنڈے ٹھنڈے لڑتے رہو ویسے تو اس کا تانا بانا گلوبل وارمنگ سے بھی جوڑا جا سکتا ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں پاکستان کے حالات بس اب کوئی فرشتہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے ایسے ہی گلوبل وارمنگ روکنے کو کوئی خلائی مخلوق ہی اتر آئی ہو۔

المختصر اور الجامع سرکار آپ کا جو دل آئے کریں، جو دل آئے بیان دیں ہمارا کیا ہے ہم تو ویسے ہی یس سر کہنے والی مخلوق ہیں اور ہمیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ خلائی مخلوق زمین پر قبضہ کر لے کہ آج آپ کو فرشی سلام پیش کرتے ہیں کل ان کو کر لیں گے۔ غلام کی کیا عزت اور کیا نفس آپ کا مسئلہ ہے آپ بھگتائیں ہماری طرف سے اوباما نہ سہی ایکس وائی زیڈ , ایکس وائی زیڈ نہ سہی الو الو ہیلو والا نسطور جادوگر ہی سہی۔ نوکر کی تے نخرہ کی۔۔۔

sard jung, khlai makhlooq aur chuti his