September 21, 2015

تین دعوتیں تین کہانیاں



غالباً میں چار، پانچ سال کا رہا ہوں گا جب ایک دن عید نماز سے واپسی پر یا شاید جمعہ نماز سے واپسی پر چچا اپنے کسی دوست کے گھر لے گئے- چونکہ احمد پور شرقیہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جہاں ہمارا خاندان خاصا نیک نام تھا اور اس زمانے میں شرافت اور اخلاق کی عزت کی جاتی تھی تو جہاں جاتا تھا وہاں 'خالد شاہ کا نکا' یعنی خالد شاہ کا بیٹا ہونے کے ناطے خاصی آؤ بھگت ہوتی- وہاں بھی آؤ بھگت ہوئی اور اسی سلسلے میں وہ اعزاز جو اپنے اتنہائی قریبیوں کو بخشا جاتا تھا ہمیں بھی بخشا گیا اور زنان خانے کا بھی دورہ کروایا گیا جہاں دو جوان خواتین بیٹھی آٹا ہاتھوں میں مل مل کر سویاں بنا رہی تھیں۔ انہوں نے سردائی کی پیشکش کی جو میں نے شرم کے مارے انکار کر دی- اب یاد نہیں شرم ان خواتین سے آ رہی تھی کہ اس زمانے اور اس سے کئی آنے والے زمانوں تک خواتین دیکھ کر یار لوگ جسے رال ٹپکنا سمجھتے رہے دراصل پتہ تھا جو پانی ہو کر منہ کے راستے باہر نکل رہا ہوتا تھا، یا ان کے ہاتھوں پر مسلنے والے آٹے کی میل سے گھبرا رہا تھا حالانکہ صفائی کے معاملے میں ایسا رہا ہوں کہ اکثر چیونگم منہ سے نکال کر جیب میں رکھ لیتا تھا کہ جب بڑے ادھر ادھر ہوں گے پھر سےچبانا شروع کر دوں گا یا اپنے ایمان پر بھروسا نہ تھا کہ کھانے پینے کے معاملے میں ہم بچپن سے منہ چھوڑ واقع ہوئے ہیں کہ بچپن میں اکثر زیادہ کھانے سے ہیضہ کا شکار رہتا تھا- آخر کار جب ان کا اصرار بڑھا تو انہوں نے حدیث نبوی کا سہارا لیا کہ کسی کی دعوت نہیں ٹھکرانی چاہیے تو میں نے مجبور ہو کر تین چار گلاس پی ہی لیے۔ لیکن یہ بات اس دعوت کے متعلق نہیں بلکہ اس کے بعد ہمارے اس اصول کے تحت ہونے والی تین دعوتوں کے ہیں کہ دعوت کبھی نہیں ٹھکرانی چاہیے-


سنہ2005 میں پہلی بار چند دوستوں کے ہمراہ دبئی جانا ہوا۔ باقی دوستوں نے تو ایک اور دوست کے ہاں رہائش اختیار کی اور میں اپنے والد صاحب کے پاس رہا۔ ایک جمعہ والد صاحب نے کہا کہ آپ کے دوستوں کو دعوت دیتے ہیں۔ میں نے سوچا "واہ جی واہ دوبئی کا مزہ دو بالا ہو جائے گا"۔ میں ، والد صاحب اور میرے دوست 'دیرہ دوبئی' کے اس زمانے کے ایک مشہور عربی ہوٹل میں پہنچ گئے۔ جب کھانا آ گیا تو وہ حال ہوا کہ جو سانپ کا ہوا ہو گا جب اس نے چھپکلی نگل لی ہو گی کہ نکالے تو مصیبت نگلے تو مصیبت۔ ہم جو ملتان میں 'پپو تکے والے' سے ایسے کباب تکے کھانے کے عادی تھے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی آواز لگاتا کہ "چھوٹے ٹاٹری زیادہ رکھنا"، کو ایسے کباب کھانے پڑ گئے جس میں مصالحے مثال کو نہ تھے اور گوشت الگ کچا پکا سا۔ جیسے ہی ایک لقمہ لیتے ذہن میں خیال آتا شاید منٹو صاحب نے افسانہ ٹھنڈا گوشت کسی ایسی ہی دعوت میں لکھا ہو گا۔ حالانکہ کھانے میں تب گوشت ہی سب سے مناسب لگ رہا تھا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے دال کا سوپ آ گیا۔ اب دال ہم نے سوائے کالے کرنے کے علاوہ کبھی استعمال نہ کی تھی اس کا سوپ خاک پیتے اور سوپ تو ویسے ہی تب پیا جاتا ہے جب ڈاکٹر لکھ کر دے۔ دال کا مرحلہ ٹلا تو حمص آ گیا۔ حمص چھولوں کا آٹا ہوتا ہے جس میں زیتون کا تیل ڈالا ہوتا ہے اور تیل اور گھی ہمیں اتنا نا پسند ہے کہ ہم نے گھی اور تیل والی روٹی کھانے سے بچنے کے لیے ناشتہ کئی سالوں سے چھوڑ رکھا تھا۔ کجا کچا تیل اور کچا آٹا۔ روٹی کی جگہ خبس تھا جس کی مثال بس اس روٹی سے دی جا سکتی ہے جو ہم رات کو پانی میں بھگو رکھتے تھے کہ صبح بھینسوں کو ڈالیں گے۔ اب مسئلہ فہرست طعام یعنی مینیو کا نہیں تھا بلکہ مینیو چننے والے یعنی ہمارے والد صاحب کا تھا کہ ہمیں قیامت سے زیادہ ایمان اپنے والد صاحب کے غصے پر ہے کہ کسی بھی لمحے آ سکتا ہے جبکہ قیامت آنے کی تو پھر چند ایک نشانیاں پوری ہونا لازمی ہیں۔ کیا کھایا کیسے کھایا مت پوچھ ساقی بس اس شخص بارے سوچ لیں جس نے سو پیاز بھی کھائے ہوں اور سو جوتے بھی۔ وقت کا تغیر دیکھیں کہ دس سال بعد آج ہمیں حمص ڈبے والا بھی پسند ہے، زیتون کا تیل روٹی کے اوپر ڈال کر بھی کھا سکتا ہوں، کھانا پسند ہی عربی اسٹائل کا ہے اور دال کا سوپ تو تالن میں کئی بار بنا کر پی چکا ہوں۔

اگلا کھانا عام سا اور آم سے تھا۔ ایک دوست جو ان دنوں اسلام آباد میں تھے نے کہا "یار میرے والد صاحب کو کوئی کام ہے آپ براہ کرم گاڑی لے جائیں ان کا کام کروا دیں"۔ کام تک تو بات ٹھیک تھی کہ ہم گئے انہوں نے کہیں جانا تھا وہاں لے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا بیٹا کھانا کھا کر جانا۔ کھانا اور سونا ایسا کام ہے جس کو میں انتہائی ذاتی کاموں میں سمجھتا ہوں اور حد درجہ کوشش کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے نہ سر انجام ہوں کہ دونوں حالات میں بندہ ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر کوئی بھی بونگی بجا سکتا ہے۔ اب ایک کھانا اور وہ بھی دوست کے والد کے سامنے کہ بندہ کتنا ہی لفنگا کیوں نہ ہو دوست اور لڑکی کے ابا جان کے سامنے قطعاً نہیں چاہے گا کہ اس کی ہوا خراب ہو۔ کھانا تو جیسے تیسے سینے پر پتھر رکھ کر چار کی بجائے ایک ہی روٹی تک محدود رکھا، ایک ایک نوالے کو اتنا چبایا کہ تمام عمر کے کھانوں کو ملا کر دانتوں نے اتنی مشقت نہ کی ہوگی، کھانے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھوئے اور کھانے کے بعد ایک بار پھر ہاتھوں کو تکلیف اٹھانا پڑی جبکہ ہم اس قبیلے کے لوگ ہیں جو کھانے والے گھی کو بطور لوشن یا تبرک سمجھ کر ہاتھوں پر لگا رہنے دیتے ہیں، ایسی تمام اشیا جن میں شوربہ تھا سے خاص احتیاط برتی کہ کہیں بھولے بھٹکے کوئی قطرہ نیچے گر کر دوست کے والد کی نظروں میں ہمیں گرانے کا باعث نہ بن جائے۔ کھانے تک تو معاملہ ہم نے اپنی دانست میں بخوبی نبھایا لیکن اس کے بعد انکل اپنے نوکر سے گویا ہوئے کہ "میٹھا لاؤ"- میٹھے سے پہلے ہی ہمارے دل میں لڈو پھوٹنے لگے کہ میٹھے پر ہم ایسے پھسلتے ہیں جیسے پاکتسانی پیسے اور لڑکی پر۔ لیکن جب میٹھا سامنے آیا یہ لڈو موتی چور کا ثابت ہوا کہ میٹھے میں پھلوں کا بادشاہ آم تھا۔ اب جیسے بادشاہ عوام سے دور محلات میں رہتے ہیں ایسے ہی عام بھی آم لوگوں سے دور بند کمروں میں کھایا جاتا اچھا لگتا ہے۔ آم کھانے کا سب سے مناسب طریقہ یہ ہے کہ نیچے وہ کپڑا بچھائیں جو اس کے بعد فرش پر پوچا مارنے کے کام آئے، اپنے وہ کپڑے پہنیں جو آپ کسی کو اللہ کے نام پر دینے کا سوچ رہے ہیں، کمرے کا دروازہ بند کر کے آلتی پالتی مار کر بیٹھیں اور کھا کر سیدھا غسل خانے جائیں ہاتھ دھونے نہیں بلکہ نہانے کہ آم کھانے کے دوران آپ کے بازو، پیٹ، کپڑے بھی آم سے جی بھر کر سیر ہو چکے ہوں گے۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق اس کے علاوہ آم کھانے کا مودبانہ طریقہ اور کوئی نہیں۔ بس کیا آم کھایا، ان عاشقوں سی حالت ہوئی جن کو ان کے محبوباؤں کے والد ایسے طریقوں سے بے عزت کرتے تھے کہ اس کے بعد وہ محبوبہ کیا محبوبہ کی سہیلیوں، دور پرے کی رشتہ دارنیوں، نوکرانیوں تک سے دستبردار ہو جایا کرتے تھے۔ بس وہ دن اور آج کا دن ہے انکل سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشکلات صرف پاکستان میں پیش آ سکتی ہیں وہ غلطی پر ہیں کہ ایک کھانا ہمیں اٹلی میں بھی کھانا پڑ گیا۔ اب باہر کے ملک میں کھانے کا پہلا مرحلہ تو چھری کانٹے سے نپٹنا ہوتا ہے۔ ادھر ادھر منہ مار مار کر چھری کانٹے کو پکڑنا تو آگیا لیکن ہم کانٹے کو سیدھے ہاتھ جبکہ چھری کو الٹے ہاتھ سے تھامتے ہیں اور کوئی پوچھے تو مذیب کی آڑ لیتے ہیں کہ کھانا سیدھے ہاتھ سے کھانا چاہیے۔ اب کھانے میں میرے ساتھ دو مزید بلاگرراجہ افتخار صاحب اور عمیر لطیف صاحب بھی تھے کہ اکیلا ہوتا تو کہہ سکتا کہ بھئی ہمارے ملتان میں کھانا ایسے ہی کھایا جاتا ہے۔ یا پھر یہی دو ہمراہی ہوتے تو ہم بےحیائی سے کھا لیتے کہ زیادہ سے زیادہ یہی سمجھیں گے کہ بننا تھا صحافی بن گئے بلاگر، لیکن کھانے کے میزبان تھے دو اطالوی پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحبان جن میں ایک خاتون بھی تھی اور کھانے کے مینیو میں تھا سپاگٹیSpaghetti  مچھلی والی۔ اس روز مجھے احساس ہوا ایسا آساں نہیں کہ کانٹے میں مچھلی اور سپاگٹی پھنسانا اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھنسانے والی پلیٹ میں ہو یا دریا میں – پہلے تو میں نے سوچا کہ ہر عید پر جو سویاں کھاتے ہیں اسی تجربے اس پل صراط کو ہنستے ہنستے پار کر لیں گے لیکن جب کانٹے نے کانٹے کی بجائے بالوں میں کنگھی والا کام شروع کر دیا یعنی پھنسانے کی بجائے سنوارنا شروع کر دیا تو ہمیں یاد آیا کہ سویاں کھاتے ہماری ٹھوڑی بھیگ کیوں جاتی تھی کہ سویاں کھانے کے دو طریقے ہیں، طریقہ نمبر ایک کہ جتنی منہ میں آجائیں باقی کو ایک لمبی سانس کھینچ کر جیسے بوتل اسٹرا میں سے کھینچتے ہیں کھینچ کر منہ میں ڈالی جائیں، اس صورت میں قطرے آپ کے ہونٹوں سے بہہ کر گلے تک چلے جاتے ہیں دوسری صورت میں جہاں تک منہ میں آئے وہاں سے کتر لیں اور باقی نیچے دودھ سے بھرے کٹورے میں غڑاپ۔ اس صورت میں آپ کے منہ اور کپڑے دونوں ہی دودھ سے بھیگ جاتے ہیں۔ اب یہاں پر نہ کترنے کی عیاشی نہ شڑکنے کی آزادی بندہ جائے تو کہاں جائے۔ میزبانوں نے میری مشکلات بھانپتے ہوئے مجھے ایک چمچ لا دیا۔ لیکن ہمارا چمچ اور چمچ پن سے کہاں کا علاقہ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے جو لمبی تاریں ہلنے میں نہیں آ رہی تھیں اب میرے منہ تک جیسے تیسے آ جاتیں لیکن وہاں سے ایسے پھسلتیں جیسے بیچ میں موجود مچھلی ابھی زندہ ہو۔ ادھر راجہ صاحب اور عمیر لطیف ایسے مزے سے کھا رہے تھے جیسے وہ پیدا ہی منہ میں کانٹا لے کر ہوئے تھے- میزبان بیچارے پریشان ہوگئے شاید ان کے ہاں ایک دن کا کھانا سارا ہفتہ کھانے کا رواج نہ تھا انہوں نے پوچھا  یہ مرض شکم کیونکر حل ہو تو میں نے دل میں جواب دیا کہ کہ مسئلہ کانٹے چھری کا نہیں آپ کا ہے کہ آپ کو اردو آتی تو آپ سمجھ جاتے کہ شرم میں کرم کیسے پھوٹتے ہیں، آخر جب کسی طور معاملہ نہ جم پایا تو میں نے کھانے والا کپڑا جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا گود میں بچھایا جاتا ہے یا گلے میں لٹکایا جاتا ہے سمیٹتے ہوئے کہا کہ بس اپنی تو پردیس آ کر بھوک ہی مر گئی۔ اچھے میزبان تھے کمی پوری کرنے کو مجھے چار پلیٹیں میٹھے کی لا دیں میرے ہمراہیوں کی طرح نہ تھے جو وہاں پر آنکھوں ہی آنکھوں میں ہنس رہے تھے اور باہر نکل کر میرا خوب مذاق اڑاتے رہے۔ بس وہ دن اور آج کا دن جب ہر دوسرے روز انتہائی بد مزہ سپاگٹی پکاتا ہوں اور ہاتھ سے بغیر چمچ اور کانٹے کے کھاتا ہوں کہ سپاگٹی سے انتقام نہ لیا تو کچھ نہ کیا۔

Teen dawatain teen kahanian